1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں زیر حراست پانچ تھائی طلبہ، داعش سے تعلق کی تردید

کشور مصطفیٰ12 جون 2015

پاکستان میں حراست میں لیے جانے والے ان پانچ تھائی طالب علموں کا عسکریت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے جو ایک جہاز پر پستول اور گولہ بارود کے ساتھ سوار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

https://p.dw.com/p/1Fg6Z
تصویر: REUTERS

تھائی لینڈ کی حکومت کے ایک ترجمان نے آج جمعہ 12 جون کے روز اس بارے میں ایک وضاحتی بیان میں کہا کہ ان پانچوں تھائی طلبہ کا نہ تو اسلامک اسٹیٹ سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کسی دوسری شدت پسند یا مجرمانہ تنظیم سے۔

یہ پانچوں تھائی طلبہ پاکستان میں ایک مذہبی مدرسے میں زیر تعلیم تھے۔ انہیں گزشتہ پیر کو ایک ہوائی جہاز میں سوار ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ جمعے کے روز پاکستانی حکام نے ایک بیان میں کہا کہ حراست میں لیے جانے والے ان پانچ تھائی طلبہ میں سے چار کو رہا کر دیا گیا ہے۔

اُدھر تھائی حکومت کے نائب ترجمان میجر جنرل سنسرن کاؤکامنرد نے ایک بیان میں کہا ہے، ’’ہمیں کوئی ایسے شواہد نہیں ملے، جن سے ان طالب علموں کے کسی بھی شدت پسند یا جرائم پیشہ گروہ سے کسی تعلق کی نشاندہی ہوتی ہو۔ اس طرح یہ دعوے غلط ثابت ہو گئے ہیں کہ کہ ان تھائی طالب علموں کا مبینہ طور پر اسلامک اسٹیٹ سے کوئی تعلق ہے۔‘‘

Konflikt im Süden Thailands
تھائی لینڈ کا شورش زدہ جنوبی علاقہتصویر: picture-alliance/dpa

آج جمعے کے روز ہی تھائی روزنامے ’بنکاک پوسٹ‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان میں پکڑے جانے والے ان پانچ تھائی طلبہ میں سے دو کا تعلق اسلامک اسٹیٹ سے ہے، جسے ISIS بھی کہا جاتا ہے۔ اس جریدے نے اپنی رپورٹ میں ملکی انٹیلیجنس ذرائع کا حوالہ دیا تھا۔

تھائی لینڈ کی فوج کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بھی جمعے ہی کے دن صحافیوں کو بتایا کہ ان طالب علموں کے اہل خانہ کے بارے میں کی گئی تفتیشی کارروائی سے پتہ چلا ہے کہ ان کے خاندانوں کا بھی تھائی لینڈ کے شورش زدہ جنوبی علاقے سے، جہاں ایک عرصے سے مسلم علیحدگی پسندی کی تحریک چل رہی ہے، کوئی تعلق نہیں ہے۔

بنکاک میں تھائی لینڈ کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری جنرل انوست کوناکورن نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جن چار تھائی طلبہ کو رہا کیا گیا ہے، انہیں دریں اثناء واپس تھائی لینڈ بھیج دیا گیا ہے جبکہ پانچواں طالب علم ابھی تک پاکستانی حکام کی تحویل میں ہے اور اس سے مزید پوچھ گچھ کی جائے گی۔