1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں رواں سال کی آخری انسداد پولیو مہم کا آغاز

16 دسمبر 2024

حکومت پاکستان نے رواں برس کی آخری انسداد پولیو مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ اس مہم کے دوران ملک بھر کے 45 ملین بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/4oCB6
ایک ہیلتھ ورکر بچے کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلارہا ہے
پاکستان میں رواں سال جنوری سے اب تک پولیو کے 63 کیسز سامنے آ چکے ہیںتصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

پاکستان میں پولیو وائرس کے پھیلاؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پاکستان اور افغانستان دنیا کے وہ واحد ممالک ہیں، جہاں اب تک ممکنہ طور پر انسانوں کے لیے مہلک اور انہیں زندگی بھر کے لیے مفلوج کر دینے والے پولیو وائرس کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا۔

پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں رواں سال جنوری سے اب تک پولیو کے 63 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

وزیر اعظم کی مشیر برائے انسداد پولیو مہم عائشہ رضا فاروق نے بتایا کہ انسداد پولیو کی قومی مہم 22 دسمبر تک جاری رہے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ، ’’میں بطور ایک ماں، آپ لوگوں سے یہ اپیل کرتی ہوں کہ پولیو ٹیم کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھولیں۔‘‘

پاکستان میں پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے مہمات مستقل بنیادوں پر جاری رہتی ہیں۔ ان مہمات کے دوران طبی عملے اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو حملوں کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ بعض شدت پسند عناصر پولیو ویکسین کے حوالے سے جعلی خبریں اور افواہیں بھی پھیلاتے ہیں کہ یہ دوا لوگوں کی تولیدی صلاحیتوں کو ختم کرنے کی ایک مغربی سازش ہے۔

پولیو ٹیم کی ایک اہلکار بچے کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلارہی ہیں اور ان کے ساتھ ایک پولیس اہلکار بھی موجود ہے
سن 1990 سے اب تک شدت پسندوں کے حملوں میں 200 سے زائد پولیو ٹیم کے اہلکار اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار ہلاک ہوچکے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber

اس سال بھی پولیو مہم کے دوران شدت پسندوں کی جانب سے حملے کے خدشات کے پیش نظر عملے کی حفاظت کے لیے ہزاروں پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود، خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں آج پولیو ٹیم پر حملہ ہوا۔ مقامی پولیس افسر ایاز خان کے مطابق اس حملے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک، جبکہ ایک پولیو ورکر زخمی ہو گیا۔

صحت عامہ اور دیگر متعلقہ اداروں کے حکام مطابق، سن 1990 سے اب تک شدت پسندوں کے حملوں میں 200 سے زائد پولیو ٹیم کے اہلکار اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔

وزیرِاعظم شہباز شریف نے حالیہ انسداد پولیو مہم کے آغاز سے قبل طبی عملے سے ملاقات میں ان کی خدمات کو سراہا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان پولیو جیسی مہلک بیماری کے خلاف جنگ میں ضرور کامیاب ہوگا۔

عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق، افغانستان میں بھی رواں سال کے دوران پولیو کے کم از کم 23 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔

ستمبر میں افغان طالبان نے ملک بھر میں پولیو کی گھر گھر ویکسینیشن مہم معطل کر دی تھی، جس سے اس مرض کے خاتمے کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا تھا۔ پولیو وائرس بہت تیزی سے پھیلتا ہے، اور جن بچوں کو پولیو کی ویکسین نہیں لگائی جاتی، وہ وائرس کے اثر سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔ نتیجتاﹰ، یہ وائرس ان بچوں سے دوسرے بچوں تک بھی منتقل ہو سکتا ہے۔

ح ف / ش ر (اے پی)

پاکستان کی ایک باہمت خاتون پولیو ورکر