پاکستان: دینی مدارس کی رجسٹریشن کا قانون نافذ ہو گیا
30 دسمبر 2024دینی مدارس کے رجسٹریشن کا متنازعہ معاملہ اتوار کو اس وقت حل ہو گیا جب صدر آصف علی زرداری نے سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 2024 کو منظوری دے دی۔ صدر کے دستخط کے ساتھ ہی دینی مدارس کی رجسٹریشن کا بل قانون میں تبدیل ہو گیا۔
وزیراعظم کے مشورے پر صدر نے بل کی سمری کی منظوری دی اور سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024 کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔
پاکستان میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ متنازعہ کیوں؟
قومی اسمبلی کے ترجمان کے مطابق سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ بل 20 اکتوبر کو سینیٹ اور 21 اکتوبر کو قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا۔ جو اب صدر کے دستخط سے قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ قانون کے تحت مدارس کے رجسٹریشن سوسائٹیز ایکٹ کے مطابق کی جائے گی اور معاملہ باہمی افہام و تفہیم سے حل کیا گیا ہے۔
قبل ازیں وفاقی کابینہ نے جمعے کو سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 میں ترامیم کی منظوری دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا تھا کہ پہلے یہ ایکٹ جیسا ہے اسی طرح منظور کیا جائے گا اور پھر صدر ایکٹ میں ترمیم کے لیے آرڈیننس جاری کریں گے، جس سے مدارس کو سوسائٹیز رجسٹریشن یا وزارت تعلیم کے تحت خود کو رجسٹر کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
مدارس کو وزارت تعلیم یا وزارت صنعت کے ساتھ رجسٹر کرنے کی اجازت
کابینہ نے وزارت قانون و انصاف کی سفارشات کی بنیاد پر مدارس کی رجسٹریشن کے عمل میں ترامیم کی منظوری دی، جس سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور اپوزیشن جماعت جے یو آئی (ف) کے درمیان حال ہی میں پارلیمنٹ سے منظور کیے گئے بل پر تنازعہ حل ہوگیا حالانکہ صدر آصف علی زرداری نے اسے پہلے واپس کر دیا تھا۔
دینی مدارس کی رجسٹریشن، اتفاق بھی اور تحفظات بھی
چند روز قبل وزیراعظم شہباز شریف نے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے پر مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی تھی اور انہیں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔
ہفتے کے روز صدر زرداری سے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ایف) سندھ کے جنرل سیکرٹری مولانا راشد سومرو نے لاڑکانہ میں ملاقات کی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی وہاں موجود تھے۔ جس میں سیاسی صورتحال کے علاوہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف سندھ کے رہنماؤں کے درمیان مدرسہ رجسٹریشن بل پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ زرداری نے مدرسہ بل پر مولانا فضل الرحمان کے تحفظات دور کرنے اور معاملے کو جلد از جلد حل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
صدر کی طرف سے جاری کردہ سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی آرڈیننس کے مطابق، جو صرف اسلام آباد کے دائرہ اختیار پر لاگو ہوتا ہے، مدارس کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ یا تو وزارت تعلیم یا وزارت صنعت کے ساتھ رجسٹر ہوں۔
نوٹیفیکیشن کا خیر مقدم
پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر محمود اشرفی نے صدر پاکستان کی جانب سے سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 2024 پر دستخط کرنے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مدرسہ رجسٹریشن پر صدارتی آرڈیننس کے بعد یہ مسئلہ حل ہو گیا اور اختلاف ختم ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے مدارس کی آزادی اور خودمختاری میں کوئی مداخلت نہیں کی۔
اسلام آباد میں غیر قانونی مدارس کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے؟
جمعیت علمائے اسلام ف (جے یو آئی ایف) نے گزٹ نوٹیفکیشن پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی قیادت دینی مدارس کی خودمختاری اور آزادی کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔ جے یو آئی ایف کے ترجمان اسلم غوری نے ایک بیان میں کہا کہ "ہم دینی مدارس کی خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے اور اس مقصد کے لیے ہر چیلنج کا سامنا کریں گے۔"
انہوں نے کہا کہ دینی مدارس نہ صرف اسلام کے قلعے ہیں بلکہ یہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں۔ اور مدارس کی اس حقیقت اور اہمیت کو تسلیم کرنا ہمارا فرض ہے۔
جے یو آئی ایف کے ترجمان نے گزٹ نوٹیفکیشن کے اجراء کو ملک کے علمائے کرام اور دینی مدارس کے درمیان اتحاد کی بڑی کامیابی قرار دیا۔
دینی مدارس رجسٹریشن قانون میں کیا ہے؟
دینی مدارس رجسٹریشن بل میں سال 1860 کے سوسائٹی ایکٹ کی شق 21 کو تبدیل کرکے 'دینی مدارس کی رجسٹریشن‘ کے نام سے ایک نئی شق شامل کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی دینی مدرسہ کسی بھی نام سے پکارا جائے، اس کی رجسٹریشن لازمی ہو گی اور رجسٹریشن کے بغیر مدرسے کو بند کر دیا جائے گا۔
’مدارس کی رجسٹریشن‘ ابھی تک ایک خواب ہی
نئے قانون کے مطابق اس ترمیمی ایکٹ 2024 کے نفاذ سے قبل قائم کیے جانے والے مدارس جو رجسٹرڈ نہ ہوں، انہیں چھ ماہ کے اندر اپنی رجسٹریشن کروانا ہو گی۔ جبکہ بل کے نفاذ کے بعد قائم ہونے والے مدارس کو رجسٹریشن کے لیے ایک سال کا وقت مہیا کیا گیا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ مدارس کو اپنی سالانہ تعلیمی سرگرمیوں کی رپورٹ رجسٹرار کو جمع کروانا ہو گی اور آڈیٹر سے اپنی مالی ضابطگیوں/حساب کا آڈٹ بھی پابندی سے کروانا ہو گا۔
اس میں کسی دینی مدرسے کو ایسا نصاب پڑھانے یا شائع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی جو'مذہبی منافرت، عسکریت پسندی یا فرقہ واریت کو فروغ دے‘ رہا ہو۔
ج ا ⁄ ص ز (خبر رساں ادارے)