1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک بھارت کشیدگی ’جلتی پر تیل نہ ڈالیں‘

تنویرشہزاد، لاہور13 اگست 2013

ایٹمی صلاحیت رکھنے والے جنوبی ایشیا کے دو اہم ممالک پاکستان اور بھارت میں بڑھتی ہوئی حالیہ کشیدگی نے خطے کے لوگوں کو شدید تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔

https://p.dw.com/p/19Omg
تصویر: dapd

لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں کے واقعات کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے جہاں منقسم خاندانوں کو پریشانی سے دوچار کیا ہے وہاں یہ صورت حال ان کاروباری لوگوں کے لیے بھی مایوسی کا با عث بن رہی ہے، جو پچھلے کئی سالوں سالوں سے پاک بھارت تجارت کے فروغ کی آس لگائے بیٹھے تھے۔

Symbolbild Grenze Indien Bangladesh
حالیہ کشیدگی کے بڑھنے سے ان تمام کوششوں پر پانی پھر جائے گا، جو پاک بھارت تجارت کے فروغ کے لیے پچھلے کئی سالوں سے کی جا رہی تھیں: ایس ایم منیرتصویر: AFP/Getty Images

اس حوالے سے انڈیا پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر ایس ایم منیر نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے مزید بڑھنے سے ان تمام کوششوں پر پانی پھر جائے گا، جو پاک بھارت تجارت کے فروغ کے لیے پچھلے کئی سالوں سے کی جا رہی تھیں۔ انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے اپیل کی کہ وہ پاک بھارت کشیدگی میں فوری طور پر کمی کے لیے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے خود بات کریں، ’’پاکستان اور بھارت کے تعلقات اچھے جا رہے تھے، تجارت بھی بڑھنا شروع ہوگئی تھی، نواز حکومت کے لیے بھی بھارت کی طرف سے اچھے پیغامات مل رہے تھے، دونوں وزرائے اعظم کے خصوصی نمائندے بھی آ جا رہے تھے، پھر پتہ نہیں اچانک لائن آف کنٹرول پر کیا ہو گیا، میرے خیال میں کوئی ایسا ضرور ہے جو پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہیں چاہتا۔‘‘

اس حوالے سے ایس ایم منیر کا مزید کہنا تھا، ’’دونوں ملکوں کے پینتالیس کروڑ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، پاک بھارت تجارت کے فروغ سے ان لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہو سکتی ہے، اس وقت بھارت سے تین ارب ڈالر کا سامان پاکستان آ رہا ہے اور یہاں سے کوئی چار سو ملین ڈالر کی اشیاء بھارت جا رہی ہیں، اگر کوئی روکاوٹ نہ ہو تو پاک بھارت تجارت کا حجم اگلے تین چار سالوں میں دس ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے، لیکن ابھی پتہ نہیں کیا ہوگا، اگلے مہینے ممبئی میں پاکستانی مصنوعات کی نمائش ہونی تھی، پتہ نہیں اس کا کیا بنتا ہے اورویزوں کے بارے میں حکومتیں کیا رویہ اختیار کرتی ہیں، میرے خیال میں تجارت کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے‘‘۔

Nawaz Sharif / Pakistan / Muslimliga
وزیراعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیںتصویر: Reuters

تازہ اطلاعات کے مطابق پاک بھارت کشیدگی میں اضافے کے اثرات پاک بھارت تجارت پر پڑنا شروع ہو چکے ہیں، اور لائن آف کنٹرول کے آر پار سبزیوں اور پھلوں کی باہمی تجارت رک چکی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پچھلی حکومت کی اعلانیہ پالیسی کے برخلاف ، پاکستانی وزیر خزانہ اسحاق ڈاراپنے ایک حالیہ بیان میں کہاہے کہ پاکستان بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دینے پر غور نہیں کر رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اب بھارت سے پانچ سو میگا وواٹ بجلی درآمد کرنے کی تجویز پر عمل ہو سکے گا یا نہیں۔

ادھرانگریزی اخبارڈیلی ٹائمز کے ایڈیٹرراشد رحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاک بھارت کشیدگی کا حالیہ واقعہ نہ تو پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی یہ آخری واقعہ ہے۔ ان کے خیال میں یہ کشیدگی ایک مستقل رجحان کو ظاہر کر رہی ہے کیونکہ جب بھی پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی کوئی موثر کوشش ہونے لگتی ہے تو اسی وقت کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو جاتا ہے۔ ان کے بقول کارگل اور ممبئی بم دھماکے اس کی واضح مثالیں ہیں۔

راشد رحمن کہتے ہیں، کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل دو ملکوں میں جنگ نہ تو ہو سکتی ہے اور نہ ہی ہونی چاہیے لیکن پاکستان اور بھارت میں بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی بڑا ردعمل دیکھنے میں آ جاتا ہے۔ اس لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس مئسلے کے فوری حل کے لیے دونوں ملکوں کے متعلقہ حکام کو صورت حال کو معمول پر لانے کے لیے فوری بات چیت کرنی چاہیے۔

TV Direct-to-Home Verbindungen in Indien
پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے دونوں ملکوں کے میڈیا کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگاتصویر: DW/P.M.Tewari

اس سوال کے جواب میں کہ پاک بھارت کشیدگی کا فائدہ کس کو ہوتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ پاک بھارت کشیدگی سے ایک تو عسکریت پسندوں کے مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ دوسرے انتخابات سے پہلے بھارتی حزب اختلاف کو حکومت کے خلاف پوائنٹ سکورنگ میں مدد ملتی ہے۔ تیسرے کشیدگی کے خوف سے افواج کو دفاعی بجٹ کو ’’جسٹی فائی‘‘ کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔

راشد رحمٰن کے مطابق پاک بھارت کشیدہ صورت حال میں دونوں ملکوں کا میڈیا ذمہ دارانہ کردار ادا نہیں کر رہا۔ ان کے بقول میڈیا کو جلتی پر تیل نہیں ڈالنا چاہیے۔ منہ توڑ جواب دینے کی باتیں کرکے کشیدگی بڑھانے، پراپیگنڈا اور ایجنڈا فالو کرنے کی بجائے حقائق سامنے لانے چاہیئں۔

ناصر نامی ایک پاکستانی کے بہت سے رشتہ دار بھارت میں مقیم ہیں، ان کو ڈر ہے کہ کہیں پاک بھارت کشیدگی کے نتیجے میں نئی سفری پابندیاں نہ لگ جائیں، ادھر پاکستان کے سیاسی حلقوں میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی طرف سے مئسلہ کشمیر کے حل کے لیے ممکنہ کردار ادا کرنے کی بیان کو بھی دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔