پاک بھارت کشیدگی ’جلتی پر تیل نہ ڈالیں‘
13 اگست 2013لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں کے واقعات کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے جہاں منقسم خاندانوں کو پریشانی سے دوچار کیا ہے وہاں یہ صورت حال ان کاروباری لوگوں کے لیے بھی مایوسی کا با عث بن رہی ہے، جو پچھلے کئی سالوں سالوں سے پاک بھارت تجارت کے فروغ کی آس لگائے بیٹھے تھے۔
اس حوالے سے انڈیا پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر ایس ایم منیر نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے مزید بڑھنے سے ان تمام کوششوں پر پانی پھر جائے گا، جو پاک بھارت تجارت کے فروغ کے لیے پچھلے کئی سالوں سے کی جا رہی تھیں۔ انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے اپیل کی کہ وہ پاک بھارت کشیدگی میں فوری طور پر کمی کے لیے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے خود بات کریں، ’’پاکستان اور بھارت کے تعلقات اچھے جا رہے تھے، تجارت بھی بڑھنا شروع ہوگئی تھی، نواز حکومت کے لیے بھی بھارت کی طرف سے اچھے پیغامات مل رہے تھے، دونوں وزرائے اعظم کے خصوصی نمائندے بھی آ جا رہے تھے، پھر پتہ نہیں اچانک لائن آف کنٹرول پر کیا ہو گیا، میرے خیال میں کوئی ایسا ضرور ہے جو پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہیں چاہتا۔‘‘
اس حوالے سے ایس ایم منیر کا مزید کہنا تھا، ’’دونوں ملکوں کے پینتالیس کروڑ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، پاک بھارت تجارت کے فروغ سے ان لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہو سکتی ہے، اس وقت بھارت سے تین ارب ڈالر کا سامان پاکستان آ رہا ہے اور یہاں سے کوئی چار سو ملین ڈالر کی اشیاء بھارت جا رہی ہیں، اگر کوئی روکاوٹ نہ ہو تو پاک بھارت تجارت کا حجم اگلے تین چار سالوں میں دس ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے، لیکن ابھی پتہ نہیں کیا ہوگا، اگلے مہینے ممبئی میں پاکستانی مصنوعات کی نمائش ہونی تھی، پتہ نہیں اس کا کیا بنتا ہے اورویزوں کے بارے میں حکومتیں کیا رویہ اختیار کرتی ہیں، میرے خیال میں تجارت کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے‘‘۔
تازہ اطلاعات کے مطابق پاک بھارت کشیدگی میں اضافے کے اثرات پاک بھارت تجارت پر پڑنا شروع ہو چکے ہیں، اور لائن آف کنٹرول کے آر پار سبزیوں اور پھلوں کی باہمی تجارت رک چکی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پچھلی حکومت کی اعلانیہ پالیسی کے برخلاف ، پاکستانی وزیر خزانہ اسحاق ڈاراپنے ایک حالیہ بیان میں کہاہے کہ پاکستان بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دینے پر غور نہیں کر رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اب بھارت سے پانچ سو میگا وواٹ بجلی درآمد کرنے کی تجویز پر عمل ہو سکے گا یا نہیں۔
ادھرانگریزی اخبارڈیلی ٹائمز کے ایڈیٹرراشد رحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاک بھارت کشیدگی کا حالیہ واقعہ نہ تو پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی یہ آخری واقعہ ہے۔ ان کے خیال میں یہ کشیدگی ایک مستقل رجحان کو ظاہر کر رہی ہے کیونکہ جب بھی پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی کوئی موثر کوشش ہونے لگتی ہے تو اسی وقت کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو جاتا ہے۔ ان کے بقول کارگل اور ممبئی بم دھماکے اس کی واضح مثالیں ہیں۔
راشد رحمن کہتے ہیں، کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل دو ملکوں میں جنگ نہ تو ہو سکتی ہے اور نہ ہی ہونی چاہیے لیکن پاکستان اور بھارت میں بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی بڑا ردعمل دیکھنے میں آ جاتا ہے۔ اس لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس مئسلے کے فوری حل کے لیے دونوں ملکوں کے متعلقہ حکام کو صورت حال کو معمول پر لانے کے لیے فوری بات چیت کرنی چاہیے۔
اس سوال کے جواب میں کہ پاک بھارت کشیدگی کا فائدہ کس کو ہوتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ پاک بھارت کشیدگی سے ایک تو عسکریت پسندوں کے مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ دوسرے انتخابات سے پہلے بھارتی حزب اختلاف کو حکومت کے خلاف پوائنٹ سکورنگ میں مدد ملتی ہے۔ تیسرے کشیدگی کے خوف سے افواج کو دفاعی بجٹ کو ’’جسٹی فائی‘‘ کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔
راشد رحمٰن کے مطابق پاک بھارت کشیدہ صورت حال میں دونوں ملکوں کا میڈیا ذمہ دارانہ کردار ادا نہیں کر رہا۔ ان کے بقول میڈیا کو جلتی پر تیل نہیں ڈالنا چاہیے۔ منہ توڑ جواب دینے کی باتیں کرکے کشیدگی بڑھانے، پراپیگنڈا اور ایجنڈا فالو کرنے کی بجائے حقائق سامنے لانے چاہیئں۔
ناصر نامی ایک پاکستانی کے بہت سے رشتہ دار بھارت میں مقیم ہیں، ان کو ڈر ہے کہ کہیں پاک بھارت کشیدگی کے نتیجے میں نئی سفری پابندیاں نہ لگ جائیں، ادھر پاکستان کے سیاسی حلقوں میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی طرف سے مئسلہ کشمیر کے حل کے لیے ممکنہ کردار ادا کرنے کی بیان کو بھی دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔