پاک بھارت تجارت، اصل مسئلہ کیا ہے؟
15 فروری 2012پیر کے روز لاہور کے ایکسپو سنٹرمیں جب پاکستان کے وزیر تجارت مخدوم امین فہیم پاک بھارت تجارت کے حوالے سے پازیٹو لسٹ کے خاتمے کا اعلان کر رہے تھے تو ان کے لہجے میں کوئی ابہام نہیں تھا۔
مخدوم امین فہیم کہہ رہے تھے، ’’ہم نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات معمول پر لانے کے لیے پاکستان کی پازیٹو لسٹ (وہ چند اشیا جن کی تجارت ہو سکتی ہے) کو ختم کرکے نیگیٹو لسٹ (یعنی وہ چند اشیاء جن کی فی ا لحال تجارت نہیں ہو سکے گی) پر جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘
پاکستان کے وزیر تجارت کے اس بیان کی پرزور تالیوں سے تحسین کی گئی اور ان کی اس تقریر کے اختتام پر بھارتی وزیر تجارت نے اپنی نشست سے اٹھ کر ان کا خیر مقدم کیا۔ اس واقعے کو ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ پاکستان کی کابینہ نے پراسرار طور پر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہ لیے جا سکنے کا جواز پیش کرکے اس بظاہر حتمی فیصلے کو مؤخر کر دیا۔
ممتاز تجزیہ نگار نذیر ناجی کہتے ہیں، ’’پاک بھارت تجارت کے معمول پر نہ آ سکنے میں پاکستان کے ایک بالا دست ریاستی ادارے کی ضد حائل ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ پاک بھارت تجارت کو فروغ نہ دے کر بھارت کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پورا کرنے میں رکاوٹ کھڑی کی جا سکتی ہے۔ اس سے بھارت کو دباؤ میں لا کر مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔‘‘
نذیر ناجی کا کہنا ہے کہ پاک بھارت تجارت کی حامی پاکستان کی جمہوری حکومت کمزور ہے اور اہم فیصلہ سازی میں اس کا کردار محدود ہے۔ ان کے بقول دفاعی، خارجی اور اب تجارتی معاملات میں بھی فوج کی بات زیادہ چلتی ہے، اس لیے جب وہاں سے حکم آتا ہے حکومت پیچھے ہٹ جاتی ہے۔
اقتصادی تجزیہ نگار منصور احمد کی رائے یہ ہے کہ پاک بھارت تجارت کے منصفانہ فروغ سے دونوں ملکوں کے عوام کا فائدہ ہو گا، انھیں سستی اشیاء کم وقت میں مل سکیں گی اور کاروباری سرگرمیوں کو ترقی ملے گی۔ ان کے بقول پچھلے تین سالوں سے پاک بھارت تجارت کا اوسط سالانہ حجم ایک اعشاریہ آٹھ ارب امریکی ڈالر رہا ہے۔ اس میں دو سو ملین ڈالر کے لگ بھگ پاکستانی برآمدات ہیں جبکہ باقی حصہ بھارت کا ہے۔
منصور احمد کا کہنا ہے، ’’اس وقت دونوں ملکوں کے مابین سنگا پور، دبئی، ہانگ کانگ اور دوسرے راستوں سے دو ارب ڈالرز سے زائد مالیت کی اشیا کی بلواسطہ تجارت بھی ہو رہی ہے۔ پاک بھارت تجارت کا پوٹینشل دس ارب امریکی ڈالرز کے قریب ہے۔‘‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت بعض صنعتی شعبوں کے تحفظات کو طے کیے بغیر فوری طور پر پاک بھارت تجارت کو فروغ دینا چاہتی ہے جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ وہ یہ فیصلے کسی بیرونی دباؤ کے تحت کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف عسکری قیادت ان تجارتی فیصلوں کو سیاسی ایشوز سے منسلک کر رہی ہے جو کہ ان کے بقول درست بات نہیں ہے۔
اگرچہ پاک بھارت تجارت کے حوالے سے تاجروں، صنعت کاروں اور اراکین پارلیمنٹ سمیت زیادہ تر لوگ پاک بھارت تجارت کے حق میں بات کر رہے ہیں لیکن پاکستان کے عسکری حلقوں سے وابستگی کا تاثر رکھنے والی کئی مذہبی جماعتیں اس کے خلاف ایک مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے بتایا کہ وہ بھارت جو کشمیریوں پر ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہو اس سے تجارت کرنا پاکستان کے مفاد میں کیسے ہو سکتا ہے؟
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: حماد کیانی