پاناما لیکس پر دباؤ کے شکار کیمرون اب کرپشن کے خلاف سرگرم
13 مئی 2016کرپشن یعنی بدعنوانی، منی لانڈرنگ یعنی کالے دھن کو قانونی شکل دینے اور ٹیکس چوری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون خود بھی دباؤ کا شکار ہو گئے تھے کیونکہ اُنہوں نے بھی ایک زمانے میں آف شور فنڈز میں سرمایہ کاری کی تھی۔ اب لیکن کیمرون خم ٹھونک کر کرپشن کے انسداد کی جنگ میں شامل ہو گئے ہیں۔ برطانوی دارالحکومت میں بارہ مئی بدھ کے روز منعقدہ انسداد بدعنوانی کانفرنس اُنہی کی کوششوں کا نتیجہ تھی۔
لندن میں رہائشی مکانات اور اپارٹمنٹس بہت مہنگے ہیں اور کروڑوں پاؤنڈز میں فروخت ہوتے ہیں۔ شبہ ہے کہ انہیں اکثر ایسی کمپنیاں خریدتی ہیں، جن کا واحد مقصد اپنے کالے دھن کو قانونی شکل دینا ہوتا ہے۔
برطانوی حکومت اب ایسے سودوں کو مشکل بنا دینا چاہتی ہے۔ آئندہ اصل فروخت کنندہ اور اصل خریدار کو لازمی طور پر اپنی شناخت ظاہر کرنا ہو گی۔ اس اقدام کا مقصد مشکوک ذرائع سے آنے والے پیسے کے بہاؤ کو روکنا ہے۔
اس کانفرنس میں برطانوی وزیراعظم نے کہا کہ کرپشن کا انسداد کسی ایک ملک کے بس کا نہیں ہے:’’آج ہم پوری دنیا سے یہاں جمع ہوئے ہیں، کرپشن کو بے نقاب کرنے، اس کے مرتکب افراد کو سزا دینے اور اس کا قلع قمع کرنے کے لیے۔ یہ اپنی نوعیت کی چوٹی کی پہلی کانفرنس ہے۔ کرپشن کے خلاف جنگ کے سیاسی عزم کے اظہار کے لیے گزشتہ کئی برسوں کے بعد یہ اپنی نوعیت کا پہلا اجتماع ہے۔‘‘
برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ آف شور کمپنیوں کے حوالے سے شفافیت کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ لندن کے اس اجتماع میں شریک جرمن وزیر انصاف ہائیکو ماس بھی اصولاً ٹیکس چوری روکنے کے لیے اس طرح کے اقدامات کے حق میں ہیں لیکن جرمنی نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ آیا اس طرح کی کمپنیوں سے متعلق تفصیلات صرف متعلقہ محکمے ہی دیکھ سکیں یا یہ کہ ہر شخص انہیں دیکھ سکتا ہو۔
اس کانفرنس میں شریک نائجیریا کے صدر محمد بخاری نے کرپشن کو دور حاضر کے بڑے دشمنوں میں سے ایک قرار دیا اور کہا کہ بین الاقوامی برادری نے طویل عرصے تک اس مسئلے کو نظر انداز کیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ غیر ملکی اکاؤنٹس میں پڑی رشوت کی رقم واپس نائجیریا لائی جائے۔
’ٹیکس چوروں کی جنت‘ کہلانے والے خطّوں میں امریکی ریاست ڈیلاویئر اور مختلف برطانوی جزائر بھی شامل ہیں۔ اسی بناء پر اس کانفرنس کے دوران امریکا اور برطانیہ کو کڑی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔