1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاراچنار میں پکڑے جانے والے مشکوک لوگ کون تھے؟

شاہ زیب جیلانی
11 اکتوبر 2019

افغانستان سے متصل قبائلی علاقے کُرم میں جمعرات کو لوگوں نے انتیس مشتبہ افراد کو پکڑ کر فوج کے حوالے کیا۔ یہ لوگ کون تھے اور کہاں گئے؟

https://p.dw.com/p/3R9IM
Pakistan - Grenzposten in Parachinar Hauptstadt des Kurram Tribal District
تصویر: Getty Images/AFP/B. Gilani

پاراچنار میں جمعرات کو ان افراد کی موجودگی سے لوگوں میں خوف پھیل گیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق اُن کا حُلیہ طالبان جیسا تھا اور وہ شہر سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اسلامیہ پبلک اسکول کے پاس جمع تھے۔ یہاں کے لوگوں کے ذہنوں پر آرمی پبلک اسکول پشاور کا سانحہ نقش ہے۔ اسکول کے چوکیدار نے غیرمقامی لوگوں کو دیکھا تو سب کو خبردار کرنے کے لیے کچھ ہوائی فائر کیے۔

دیکھتے ہی دیکھتے علاقے میں گڑبڑ کی اطلاع پھیل گئی اور پاراچنار کے لوگ اور قبائلی عمائدین لشکر کی صورت میں وہاں پہنچ گئے۔ ان مشکوک افراد کو فوج اور انتظامیہ کے پہنچنے تک پکڑ کر بٹھالیا گیا۔  علاقے کے مُشتعل نوجوانوں نے ان مشکوک افراد کی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال دیں اور انہیں ریاست کے قریب سمجھے جانے والے 'گُڈ طالبان‘ قرار دیا گیا۔

ضلع کُرم کے جس حصے میں کشیدگی کا یہ تازہ واقعہ پیش آیا وہاں شعیہ اکژیت ہے۔ یہ علاقہ فرقہ وارانہ اعتبار سے بھی ایک حساس قبائلی علاقہ ہے۔ ماضی میں یہاں فرقہ وارانہ حملوں میں کئی  جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ 

مقامی صحافیوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مشتبہ افراد ایک کوچ اور ڈبل کیبن گاڑی میں سوار تھے۔ وہ اسکول کے سامنے سے گزر رہے تھے جب ان کا ایک ٹائر پنکچر ہو گیا۔ وہ لوگ پنکچر بنوانے کے لیے رُکے ہوئے تھے کہ ایک موٹر سائیکل سوار نے گزرتے ہوئے ان پر فائر نگ کی۔ فائرنگ کی آواز سُن کر اسکول کا چوکیدار چوکنا ہوگیا اور طالبان کے کسی حملے کے خوف کی وجہ سے اُس نے بھی ہوائی فائر کیے۔

Pakistan Grenzzwischenfall bei Quetta
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

کُرم کی سرحدیں تین اطراف سے افغانستان سے ملتی ہیں۔ یہ علاقہ برسوں تک حقانی نیٹ ورک کے کارندوں کا اہم روٹ رہا ہے۔  دسمبر سن دو ہزار سترہ اور جنوری سن دو ہزار اٹھارہ میں کُرم کے سرحدی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے بھی ہوئے جن میں مبینہ شدت پسند مارے گئے تھے۔

مقامی عمائدین نے بعد میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ان لوگوں سے نہ تو کوئی ہتھیار ملے اور نہ ہی انہوں نے کسی پر کوئی حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ معاملے کو رفع دفع کیا گیا اور ان افراد کو سکیورٹی فورسز کے حوالے کیا گیا۔ اطلاعات ہیں کہ فوج نے انہیں آرمی کیمپ منتقل کردیا۔

کُرم سے رکن قومی اسمبلی ساجد طوری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بظاہر یہ معاملہ غلط فہمی کا نتیجہ تھا ۔ انہوں نے کہا کہ، "شُکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔"  ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ لوگ مقامی نہیں تھے لیکن قبائلی تھے اور انہیں ان کے قبائل کے حوالے کر دیا جائے گا۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید