پائریٹس یا قزاق جرمنی کی ابھرتی سیاسی طاقت
28 مارچ 2012جرمنی میں آئندہ برس یعنی 2013ء میں عام انتخابات کا انعقاد ہونا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ برس اور سال رواں میں چند جرمن صوبوں میں الیکشن منعقد ہو چُکے ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج سے بہت حد تک عوام کے سیاسی رویے میں تبدیلی کا اشارہ مل رہا ہے۔ اس ضمن میں جرمن نوجوانوں کی ایک سیاسی جماعت Pirate یا قزاق پارٹی کے نام سے سامنے آئی ہے اور ایک نئی قوت بن کر اُبھری ہے۔
سویڈن کی Pirate پارٹی کی طرز پر جرمن نوجوانوں نے جرمن Pirate پارٹی کی بنیاد 2006 میں رکھی تھی۔ پارٹی کے ممبران جو پائیرٹس یا قزاق کہلاتے ہیں دراصل ایسے آزاد خیال نوجوان ہیں جو اس ڈیجیٹل دور میں انٹرنیٹ کو ہر قسم کی قید و بند سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ نوجوان جدید شہری حقوق کے تحفظ کے طور پر ٹیلیفون اور انٹر نیٹ کو آزاد اور بغیر کسی پابندی کے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ یورپی سطح پر پائی جانے والی ڈیٹا پروٹیکشن یا کوائف کو محفوظ رکھنے کی پالیسی کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے سیاسی مطالبات میں کاپی رائٹ، تعلیم، جینیٹک پیٹنٹ اور ڈرگ پالیسی میں اصلاحات شامل ہیں۔
جرمن Pirate پارٹی نے حال ہی میں جرمن صوبے زارلینڈ میں ہونے والے انتخابات میں سات فیصد ووٹ حاصل کیے۔ اس سے قبل گزشتہ سال ستمبر میں برلن کی سٹی اسٹیٹ میں ہونے والے علاقائی پارلیمان کے انتخابات میں Pirate پارٹی کو 9 فیصد ووٹ ملے تھے۔ ان نتائج سے نہ صرف جرمن عوام میں ایک نئے سیاسی رجحان کی نشاندہی ہو رہی ہے بلکہ جرمنی کے سیاسی منظر نامے پر نئی صورتحال کے امکانات بھی بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ بن چکے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق گرچہ یہ پارٹی بہت نئی اور نا تجربہ کار ہونے کے سبب کسی بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ مل کر صوبائی اور وفاقی سطح پر مخلوط حکومت بنانے کی صلاحیبت تو نہیں رکھتی، جو کہ جرمنی میں صوبائی اور وفاقی دونوں سطحوں پر ایک معمول کی بات ہے، تاہم اس کی کامیابی سے ہو گا یہ کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے کچھ نمائندے آئندہ حکومت سازی کے عمل میں اہم کردار ادا کر سکیں گے۔
حال ہی میں جنوب مغربی ریاست زارلینڈ کے انتخابات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت 35.2 فیصد حاصل کرتے ہوئے فاتح رہی۔ جبکہ میرکل کی اتحادی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی ایف ڈی پی زارلینڈ کی ریاستی اسمبلی تک بھی نہیں پہنچ پائی ہے کیونکہ وہ مطلوبہ کم از کم پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
اُدھر مرکزی اپوزیشن جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی زارلینڈ کے انتخابات میں توقعات کے مطابق کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے۔ تاہم اسے 2009ء کے انتخابات کے مقابلے میں بہتر شرح سے ووٹ ملے ، جو اس مرتبہ 30.6 رہی ہے۔ اس حوالے سے ایس پی ڈی کے سربراہ زِگمار گابریئل کا کہنا ہے: ''مجھے ان نتائج پر دُکھ بھی ہے اور خوشی بھی۔‘‘
اب زارلینڈ میں حکومت کی باگ ڈور ایس پی ڈی اور سی ڈی یو کے اتحاد کے ہاتھوں میں آنے کی توقع ہے، جہاں کی روایتی کوئلے کی صنعت کی جگہ اب کارسازی اور مینوفیکچرنگ کے دیگر شعبوں نے لے لی ہے۔
ایف ڈی پی گزشتہ برس ہونے والے علاقائی انتخابات میں بھی پانچ ریاستی اسمبلیوں سے نکل چکی ہے، جس کی وجہ ان ریاستوں میں اسمبلی میں نمائندگی برقرار رکھنے کے لیے کم از کم پانچ فیصد ووٹ لینے میں ناکامی ہے۔
ایف ڈی پی کے جنرل سیکرٹری پاٹرک ڈوئرنگ نے چھ ریاستوں میں ناکامی کے باوجود مئی میں دو ریاستوں شلیزوِگ ہولشٹائن اور نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی کی امید ظاہر کی۔ انہوں نے کہا:''ہم دکھا دیں گے کہ منظم آزاد خیالی ان دونوں ریاستوں میں اِس قَدر مستحکم ہے کہ پارلیمنٹ میں اہم کردار نبھا سکتی ہے۔‘‘
گزشتہ برس کے علاقائی انتخابات میں چانسلر میرکل کی جماعت کو بھی دھچکے لگے۔ ستمبر میں انہیں آبائی ریاست میکلن برگ فورپورمن میں شکست ہوئی۔ تاہم سی ڈی یو کے لیے گزشتہ برس مارچ میں گرین پارٹی کے ہاتھوں جنوب مغربی ریاست باڈن ورٹمبرگ میں شکست کو 'ذلت آمیز‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس ریاست میں سی ڈی یو نے تقریباً چھ دہائیوں تک حکومت کی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق نہ صرف چانسلر انگیلا میرکل بلکہ ان کی جماعت سی ڈی یو کی مقبولیت میں بھی کمی نہیں آئی ہے۔ تاہم آئندہ برس یعنی 2013 کے انتخابات سے جن لوگوں نے ماحول پسند گرین پارٹی اور سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی ایس پی ڈی کی مخلوط حکومت کی تشکیل کی امید لگا رکھی ہے وہ نئی مگر جوش اور ولولے سے سرشار Pirate پارٹی کی ریاستی سطح پر کامیابیوں سے کسی حد تک مایوس ہیں کیونکہ اگر یہ سلسلہ مزید پھیلتا گیا تو وفاقی حکومت سازی میں Pirate پارٹی کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت:امجد علی