ٹیکنالوجی کی یلغار: ہیرا منڈی کی رونقیں ماند پڑگئیں
23 اگست 2016ای کامرس کے انقلاب اور ٹیکنالوجی کے سیلاب میں مغلیہ تہذیب کے رکھ رکھاؤ والی لاہور کی ہیرا منڈی کے رنگ بھی پھیکے پڑنے لگے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس تاریخی ریڈ لائٹ ایریا کی ثقافتی اور معاشی بقا اب خطرے میں ہے۔ وہ بالکونیاں جہاں کبھی خوبصورت خواتین گاہکوں کے انتظار میں کھڑی رہا کرتی تھیں، اب ویران نظر آتی ہیں۔ خالی کمروں کے بند دروازوں پر زنگ لگ چکا ہے۔ موسیقی کے آلات بیچنے کی چند دکانیں البتہ اب بھی باقی ہیں۔ مرد حضرات ہیرا منڈی کی گلیوں میں دلچسپی تلاش کرنے کے بجائے اب ملاقات کا وقت اس حوالے سے مخصوص ویب سائٹس کے ذریعے آن لائن طے کر لیتے ہیں یا پھر سوشل میڈیا پر براہ راست خواتین سے رابطہ کر لیتے ہیں۔ ایسے میں جب ہیرا منڈی میں کاروبار مندا چل رہا ہے، ریما کنول جیسی طوائفوں نے اس علاقے کو چھوڑ دیا ہے۔ ریڈ لائٹ ایریا صدیوں پرانی بادشاہی مسجد کے نواح میں واقع ہے۔ پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی میں مغلیہ دور میں ہیرا منڈی اشرافیہ کے لیے روایتی مجرے ، اور رقص کی محفلیں سجانے کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ امراء اپنے بیٹوں کو شرفاء کے ادب آداب سکھانے کے لیے طوائفوں کے پاس بھیجا کرتے تھے۔
تاہم ایسٹ انڈیا کمپنی کی بر صغیر آمد کے بعد سے لوگوں میں روایتی مجرا کرنے والی رقاصہ اور طوائف کے درمیان تمیز تقریباً ختم ہو کر رہ گئی۔ جنس اور رقص آپس میں خلط ملط ہو گئے اورہیرا منڈی پر غلاظت کی چھاپ لگ گئی لیکن ریما آج بھی یہاں کے شاندار زمانے کو یاد کرتی ہیں۔ ریما کی والدہ اور ان کی نانی بھی ہیرامنڈی کی ان طوائفوں میں شامل رہی ہیں جو یہاں آنے والے مردوں کو رقص اور گائیکی سے محظوظ کیا کرتی تھیں۔ ریما نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا ،’’ لوگ ہماری عزت کیا کرتے تھے اور ہمیں فنکار کہا جاتا تھا لیکن گزشتہ ایک عشرے میں سب کچھ بدل گیا ہے اب کوئی ہماری عزت نہیں کرتا۔‘‘ ریما نے ہیرا منڈی کی ثقافت کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار ان لڑکیوں کو قرار دیا ہے جو اس پیشے میں کسی خاندانی پس منظر اور تربیت کے بغیرداخل ہوتی ہیں اورانہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ گاہکوں کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کیا جانا چاہیے۔
ریما نے مزید کہا کہ ان لڑکیوں کو گاہک تلاش کرنے کے لیے اب صرف ایک موبائل فون درکار ہے جس سے وہ فیس بک اور دیگر ویب سائٹس پر اشتہار دے سکتی ہیں۔ اسی طرح رقص کے لیے اب موسیقی کے سازوں اور موسیقاروں کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ کام یو ایس بی اسٹک کے ذریعے میوزک چلا کر بآسانی انجام دیا جا سکتا ہے۔ اسی پیشے سے وابستہ پچاس سالہ خاتون مہک کا کہنا ہے کہ کاروبار کے آن لائن ہونے کے بعد اس میں بہت بہتری آئی ہے۔