يورپی اقتصادی صورتحال، جرمن چانسلر دباؤ کا شکار
22 مئی 2012رواں ماہ 23 مئی کو برسلز ميں يورپی يونين کے سربراہان کا اجلاس متوقع ہے، جس کے ليے جرمن چانسلر انگيلا ميرکل پر کافی دباؤ ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی ايک رپورٹ کے مطابق توقع کی جا رہی ہے کہ اس اجلاس ميں نو منتخب فرانسيسی صدر فرانسوا اولانڈ، اطالوی وزير اعظم ماريو مونٹی اور ہسپانوی وزير اعظم ماريانو راجوئے سميت ديگر سربراہان جرمن چانسلر پر يورو زون کے ليے مشترکہ بانڈز کے اطلاق کے ليے زور ڈاليں گے۔ انگيلا ميرکل يورو زون کے ليے مشترکہ بانڈز اور فرانس کے اس مطالبے کی سخت مخالفت کرتی آئی ہيں، جس کے مطابق يورپی مرکزی بينک اقتصادی بحران کے شکار يورو زون کے ممالک کو براہ راست قرضے فراہم کر سکے۔ تاہم اب بڑھتے ہوئے ملکی اور بين الاقوامی دباؤ کے پيش نظر کئی مبصرين کی رائے میں ميرکل کو بالآخر ان مطالبات کے آگے جھکنا پڑے گا۔
دوسری جانب برسلز ميں ہونے والے اجلاس کے فوراﹰ بعد جمعرات 24 مئی کو جرمن چانسلر کا ايک اور امتحان اس وقت ہوگا، جب وہ جرمنی کی اپوزيشن جماعتوں کے سربراہان کو’Fiscal Compact‘ کے ليے آمادہ کرنے کی کوشش کريں گی۔ يہ وہ معاہدہ ہے، جس کے تحت يکم جنوری 2013ء سے يورو زون ميں شامل ممالک اپنے اپنے سالانہ بجٹ کی شرائط طے کريں گے تاکہ خطے ميں اقتصادی بحران کی صورتحال سے بچا جا سکے۔ جمعرات کو ہونے والے اجلاس ميں ميرکل کو جرمنی اور يورپ ميں اس نئے نظام کے اطلاق کے ليے سوشل ڈيموکريٹس يا ايس پی ڈی کے نام سے جانی جانے والی سياسی جماعت کی حمايت درکار ہے۔
جرمنی کے ايک اخبار Sueddeutsche Zeitung کے ايڈيٹوريل ميں لکھا گيا ہے، ’جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کو يورپ کے ليے بچتی اقدامات پر مبنی اپنی پاليسی تبديل کرنا ہو گی۔ اس ايڈيٹوريل ميں مزيد لکھا گيا ہے کہ ميرکل کے بچتی اقدامات اب ايک غلطی کے طور پر ديکھے جا رہے ہيں۔
نیوز ايجنسی روئٹرز کی رپورٹ ميں ايک جرمن اہلکار نے يہ بھی کہا ہے کہ جرمن چانسلر کو بحران کے شکار يورپی ممالک، جيسا کہ يونان اور اسپين کے ليے مقرر کردہ خسارے میں کمی کے اہداف ميں نرمی پيدا کرنا ہو گی۔ اس اہلکار نے مزيد بتايا کہ اس سلسلے ميں اگلے ماہ ہی سے چند اقدامات متعارف کروائے جا سکتے ہيں ليکن اس معالے ميں احتياط برتنا بھی ضروری ہے تاکہ بحران کے شکار ممالک کو ايسا نہ لگے کہ ان کے ليے اب نرمياں پيدا ہونا شروع ہو گئی ہيں۔
روئٹرز کے مطابق جرمن چانسلر کو مستقبل ميں کئی اہم اور مشکل فیصلے کرنا ہوں گے اور يہ ان کے ليے ايک اہم ’سياسی دور‘ ہے۔
as/ia/Reuters