ویتنام میں نایاب نسل کا گینڈا ناپید
26 اکتوبر 2011گينڈوں کی یہ نسل دنيا سے تیزی سے ناپيد ہوتی جا رہی ہے اور انڈونيشيا ميں ان کی بہت تھوڑی تعداد باقی رہ گئی ہے۔
ويتنام کے Cat Tien Park سے گذشتہ ايک برس کے دوران حاصل کیے جانے والے گوبر کے بائيس مختلف نمونوں کے جينياتی تجزيے سے بھی اس بات کی تصديق ہو گئی کہ یہ اس ناياب نسل کا آخری جانور تھا جسے ٹانگوں پر گولی مار کر ہلاک کيا گيا اور اس کے سينگ بھی اتار ليے گئے تھے۔ رپورٹ ميں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ غير قانونی شکار ہی اس جانور کی ہلاکت کا سبب بنا۔
ويتنام ميں ڈبليو ڈبليو ايف کے سربراہ ٹران تھی من ہیئن نے اس صورتحال کو افسوسناک قرار ديتے ہوئے کہا، ’’ويتنام ميں گينڈوں کی تعداد بڑھانے کے ليے کثیر سرمایہ کاری کے باوجود اس ناياب جانور کے تحفظ کی ہماری ساری کوششيں رائيگاں گئيں۔ ويتنام اپنے اس اہم قدرتی ورثے سے محروم ہو گیا ہے۔‘‘
گينڈے کے سينگوں کی کافی مانگ ہے اور انہیں یونانی ادویات کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کينسر کے علاج کے ليے بھی یہ مؤثر ہيں تاہم سائنسدان اس دعوے کو بے بنياد قرار ديتے ہيں۔
سن 1988 تک جاون نسل کے ان گينڈوں کے متعلق یہ خيال کيا جاتا رہا کہ ان کی نسل ايشيائی ممالک سے ناپيد ہو چکی ہے تاہم ويتنام میں شکار ہونے والے اس نسل کے ايک گينڈے سے یہ بات سامنے آئی کہ ان کی تھوڑی تعداد موجود ہے۔ رپورٹ ميں کہا گيا کہ ويتنام ميں مختلف اداروں کی جانب سے اس جانور کو تحفظ فراہم کرنے کی کاوشيں کی گئيں تاہم پارک انتظاميہ کے غير مؤثر حفاظتی اقدامات کی وجہ سے یہ جانور ناپيد ہو گيا۔
جاون نسل کے یہ گينڈے اپنی بقا کے شديد خطرات سے دوچار ہيں اور یہ خيال کيا جا رہا ہے کہ ان کی تعداد دنیا میں پچاس سے بھی کم رہ گئی ہے جو انڈونيشیا کے ايک چھوٹے سے پارک ميں موجود ہيں۔
جنگلی حيات کے تحفظ کے ليے ان کی غير قانونی تجارت پر پابنديوں کے باوجود یہ کاروبار جاری ہے اور اس سے ان جانوروں کو بھی شديد خطرات لاحق ہيں جو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہيں۔ حال ہی ميں ويتنام کے سرکاری ميڈيا نے ايک رپورٹ ميں بتايا ہے کہ کسٹم حکام نے چين بھيجی جانے والی ایک کھیپ ميں چھپائے گئے ايک ٹن سے زائد وزنی ہاتھی دانت اپنے قبضے ميں ليے ہيں۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: حماد کیانی