وی پی این کی رجسٹریشن سے متعلق نئی حکومتی پالیسی
26 دسمبر 2024پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے کمپنیوں کو وی پی این سروسز فراہم کرنے کے لیے لائسنس حاصل کرنے کی دعوت دی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ اقدام مستقبل میں حکومت کو غیر رجسٹرڈ وی پی این بلاک کرنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کی رجسٹریشن دوبارہ شروع کر دی ہے، جس کے تحت کمپنیاں ڈیٹا سروسز کے کلاس لائسنس حاصل کر سکتی ہیں۔
پی ٹی اے کا نئی پالیسی متعلق کیا کہنا ہے؟
پی ٹی اے کی ترجمان ملاحت عبید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کسی بھی شخص کو، رجسٹرڈ وی پی این سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں سے وی پی این سروسز حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''کوئی بھی قومی یا بین الاقوامی کمپنی جو SECP یا کمپنیوں کے رجسٹرار کے ساتھ رجسٹرڈ ہو، پی ٹی اے سے ڈیٹا سروسز لائسنس حاصل کر کے وی پی این سروسز فراہم کر سکتی ہے۔ وی پی این سروس فراہم کرنے والی کمپنیاں مقامی لائسنس یافتہ ڈیٹا سروس فراہم کنندگان کے ساتھ شراکت کر کے بھی (پاکستان میں) وی پی این سروسز فراہم کر سکتی ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام رجسٹرڈ وی پی این کے صارفین کو بہتر انٹرنیٹ خدمات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
بڑی کمپنیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ عام طور پر اپنے وی پی این خود تیار کرتی ہیں اور رائج طریقہ کار کے مطابق پی ٹی اے کے ساتھ رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔
پی ٹی اے کی ترجمان ملاحت عبید نے تاہم ان صارفین کی سرگرمیوں کی ممکنہ نگرانی کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا جو ایسی کمپنیوں کے فراہم کردہ رجسٹرڈ وی پی این استعمال کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ آیا حکومت مستقبل میں غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کو بلاک کرے گی یا نہیں۔
کاروباری طبقے کے خدشات؟
پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن کے چیئرمین سید سجاد حیدر کا کہنا ہے کہ حکومت کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ تمام وی پی اینز کو بلاک کرنا مالی طور پر حکومت اور صارفین دونوں کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ مگر دوسری طرف''حکومت فی الحال غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کو بلاک کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہہ رہی، لیکن یہ ممکن ہے کہ ملک بھر میں کاروبار اور انفرادی فری لانسرز کے رجسٹرڈ وی پی اینز استعمال کرنے کے بعد حکومت انہیں بلاک کر سکتی ہے۔‘‘
نئی متعارف کردہ پالیسی پی ٹی اے کی گزشتہ ہدایات سے مختلف ہے، جس میں اتھارٹی نے آئی ٹی کے شعبے میں کام کرنے والی تمام کمپنیوں اور افراد، اور کاروباری مقاصد کے لیے وی پی این استعمال کرنے والوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے وی پی اینز کو پی ٹی اے کے ساتھ رجسٹرڈ کرائیں۔ اس اتھارٹی نے صارفین کے لیے یہ بھی لازمی قرار دیا تھا کہ وہ ان کلائنٹس کی معلومات فراہم کریں جن سے کمپنیاں اور افراد وی پی این کے ذریعے رابطہ کرنا چاہتے ہیں۔
مزید برآں، پی ٹی اے کے ساتھ رجسٹرڈ وی پی اینز کو اسٹَیٹِک وی پی این کیٹیگری میں شامل کیا گیا تھا۔ پاکستان میں تقریباً 400,000 اسٹَیٹِک وی پی اینز کی حد ہے، جو ملک میں آئی ٹی سیکٹر سے منسلک 2.5 ملین افراد کی ضروریات پوری نہیں کر سکتی۔
پاکستان فری لانس ایسوسی ایشن کے صدر طفیل احمد خان نے نئی پالیسی کو بہتر قرار دیتے ہوئے کہا، ''یہ ایک بہتر پالیسی ہے اور اب ہم ڈائنامک وی پی اینز کی بات کر رہے ہیں جنہیں جتنے چاہیں رجسٹر کیا جا سکتا ہے۔‘‘
نئی پالیسی کے تحت وی پی اینزکیسے رجسٹر کیے جائیں گے؟
پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن کے چیئرمین سید سجاد حیدر کے بقول نئی پالیسی کے تحت وی پی اینز اسی طرح انسٹال کیے جائیں گے جیسے صارفین موجودہ وقت میں وی پی اینز استعمال کر رہے ہیں: ''فرق صرف یہ ہوگا کہ وہ رجسٹرڈ کمپنیوں کے فراہم کردہ وی پی اینز استعمال کر رہے ہوں گے۔‘‘
انہوں نے یہ بھی امید ظاہر کی کہ صارفین سوشل میڈیا سائٹس تک رسائی بھی حاصل کر سکیں گے، جو حکومت کی طرف سے بند کی گئی ہیں۔‘‘
کیا حکومت وی پی اینز کے صارفین کی نگرانی کر سکے گی؟
حالانکہ پی ٹی اے صارفین کی سرگرمیوں کی نگرانی کے ارادے کا دعویٰ نہیں کرتی اور پی ٹی اے کی ترجمان نے بھی اس بارے بات کرنے سے گریز کیا، لیکن سجاد حیدر کے خیال میں حکومت ان افراد اور کمپنیوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے کے قابل ہو جائے گی جو رجسٹرڈ کمپنیوں کے فراہم کردہ رجسٹرڈ وی پی اینز استعمال کریں گے۔ اس کے علاوہ حکومت کسی وقت غیررجسٹرڈ وی پی اینزبلاک کرنے کے بھی قابل ہو جائے گی کیونکہ کاروباری افراد رجسٹرڈ وی پی این استعمال کر رہے ہوں گے۔