وسطی یورپ میں الٹرا وائلٹ شعاعوں کی شدت کیوں بڑھ رہی ہے؟
23 دسمبر 2024الٹراوائلٹ شعاعیں جنہیں اردو میں بالائے بنفشی شعاعیں کہتے ہیں سورج کی وہ روشنی ہے، جو نظر تو نہیں آتی مگر زمین تک پہنچتی ہیں۔ یہ شعاعیں جلد کو متاثر کر سکتی ہیں۔ تحقیق کے مطابق، پچھلی دو عشروں میں جرمنی کے مغربی شہر ڈورٹمنڈ اور بیلجیم کے دارالحکومت برسلز کے قریب ان شعاعوں میں 10 سے 20 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔
بادلوں کے تحفظ میں کمی
ماہرین کے مطابق، گہرے بادل چھائے ہوں تو ان شعاعوں کی شدت کم ہوجاتی ہے تاہم الٹراوائلٹ شعاعوں کی شدت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ بادلوں سے ملنے والے تحفظ میں کمی ہے۔ وسطی یورپ میں کم بادلوں کا مطلب ہے زیادہ دھوپ، اور زیادہ دھوپ کی وجہ سے یہ شعاعیں زیادہ شدت کے ساتھ زمیں تک پہنچتی ہیں۔ شعاعوں سے تحفظ کے وفاقی دفتر کے مطابق، یہ رجحان ممکنہ طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے۔ جو ماحول اور انسانی صحت پر گہرے اثرات ڈال رہے ہیں۔
اوزون لیئر یا تہہ کی وجہ سے بھی الٹرا وائلٹ شعاعیں براہ راست زمین تک نہیں پہنچ پاتیں اور اگر یہ تہہ نہیں ہوتی تو زمین پر زندگی کا خاتمہ ہو جاتا۔
تحقیق کے نتائج
یہ تحقیق جرمن شہر ڈورٹمنڈ میں قائم ایک اسٹیشن پر اکھٹے کیے گئے اعداد و شمار کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ ان اعداد و شمار کا موازنہ برسلز کے قریب موجود دوسرے اسٹیشن سے کیا گیا۔
خطرات اور احتیاطی تدابیر
تحقیق کے مطابق، الٹرا وائلٹ شعاعوں کی بڑھتی ہوئی شدت جلد کے کینسر جیسے امراض کے خطرات کو بڑھا سکتی ہے۔ جلد پر جتنی زیادہ یہ شعاعیں پڑیں گی، اتنا ہی اس بیماری کا خطرہ بھی بڑھتا جائے گا۔ زیادہ مقدار میں یہ شعاعیں جلد کے خلیوں کو نقصان پہنچاتی ہیں، جس سے جلد کے سرطان کے ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ گرمیوں میں دھوپ سے بچاؤ کے لیے سن اسکرین کا استعمال، اور سایہ دار جگہوں پر رہنا ضروری ہے۔
الٹرا وائلٹ شعاعیں نہ تو دیکھی جا سکتی ہیں اور نہ ہی محسوس کی جا سکتی ہیں، اور یہ سورج کی روشنی نہ ہونے کے باوجود بھی موجود رہ سکتی ہیں۔
یہ تحقیق اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یورپ میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات صرف درجہ حرارت یا موسم تک محدود نہیں بلکہ انسانی صحت پر بھی گہرے اثرات ڈال رہے ہیں۔
ش/خ