وزیراعظم کی طلبی، مقدمات اور ذمہ داری کے تعین پر بحث
10 نومبر 2021ازخوڈ نوٹس کے اس مقدمے میں وزیر اعظم عمران خان نے آج سماعت کے دوران عدالت سے کہا کہ وہ حکم دے، حکومت ایکشن لے گی اور یہ کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے اور وہ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کا دعویٰ تھا کہ جب یہ واقعہ رونما ہوا تھا، اس وقت صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور ان سے جو مداوا ہو سکا وہ انہوں نے کیا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ لواحقین سوال کر رہے ہیں کہ عدالت کے حکم کے باوجود کچھ بھی نہیں ہوا اور یہ کہ بیس اکتوبر کو حکومت کو حکم دیا گیا تھا کہ ذمہ داروں کا تعین کر کے سزا دی جائے۔
آج کی کارروائی کے بعد ملک کے کئی حلقے ذمہ داران کے حوالے سے قانونی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ لواحقین اس مقدمے کے حوالے سے سابق وزیر اعلی پرویز خٹک اور کچھ فوجی افسران کے خلاف مقدمات درج کرانے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن کچھ ماہرین کے خیال میں یہ مقدمات اتنی آسانی سے درج نہیں ہو سکتے کیونکہ اس میں قانونی حدود کے سوالات درپیش ہیں۔
کچھ لواحقین ماضی میں یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ پرویز خٹک کے علاوہ سابق آرمی چیف راحیل شریف، سابق کور کمانڈر جنرل ہدایت الرحمان، سابق آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیر الاسلام اور اس وقت کے چیف سکریٹری کے خلاف بھی ایف آئی آر درج ہونی چاہیے اور ان کے خلاف مقدمات چلنے چاہیں۔
تاہم کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ فوجی افسران کے خلاف مقدمات میں قانونی پیچیدگیاں ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے کہ لواحقین چاہیں تو جس کو اس معاملے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، وہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرا سکتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے متاثرین جس کو بھی اس واقعے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں وہ اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرا سکتے ہیں لیکن اس کے بعد پھر تفتیش ہو گی اور اس میں متعلقہ پولیس افسر اس بات کا بھی تعین کرے گا کہ آیا یہ پولیس کے اختیار میں آتا ہے یا پھر اس معاملے کو آرمی اپنے قوانین کے تحت طے کرے گی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ بظاہر اس واقعے کی ابھی تک جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان سے یہ لگتا ہے کہ آرمی اس معاملے کو اندرونی طور پر طے کر سکتی ہے، ''میرے خیال میں آرمی یہ دلیل دے سکتی ہے کہ ان کے اندر احتساب کا ایک نظام ہے اور جو افراد بھی اس معاملے میں غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں ان کے خلاف متعلقہ ادارہ ایکشن لے سکتا ہے اور اس میں پولیس کی حدود کا دخل نہیں ہے۔‘‘
تاہم فوجی قوانین پر گہری نظر رکھنے والے ایک وکیل نے ڈوئچے ویلے کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پربتایا، ''میرے خیال میں یہ معاملہ سول اتھارٹی کے ماتحت آتا ہے اور لواحقین نا صرف یہ کہ ایف آئی آر درج کرا سکتے ہیں بلکہ اس کے بعد پولیس متعلقہ آرمی افسران کو طلب کر سکتی ہے اور اگر آرمی افسران انصاف کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ڈالیں یا تفتیش میں تعاون نہ کریں یا تفتیش میں رکاوٹ ڈالیں تو ان کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے۔
عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان میں کمیشن بنتے ہیں، اس میں ہزاروں صفحات لکھے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جاتا کہ کسی بھی جرم یا غفلت کے مرتکب افراد کو سزائیں دی جائیں۔ کچھ برسوں پہلے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ایبٹ آباد کمیشن بھی بنا تھا لیکن اس کمیشن کی نہ ہی رپورٹ کو منظر عام پر لایا گیا اور نہ ہی کسی ذمہ دار کو سزا دی گئی۔
معروف قانون دان جسٹس رشید رضوی کا کہنا ہے کہ شروعات کہیں سے تو ہونی چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرا یہ خیال ہے کہ ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے کیونکہ ایف آئی آر کو درج ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کئی کمیشن بنتے ہیں، ماضی میں جسٹس حمود الرحمان کمیشن بھی بنا لیکن ایکشن نہیں لیا گیا۔‘‘
جسٹس رشید رضوی کا کہنا ہے کہ اے پی ایس کے واقعے کے حوالے سے ہونے والی سماعت کے بعد کم ازکم شروعات کہیں سے تو ہونی چاہیے اور کسی کو تو سزا ملنا چاہیے ورنہ ملک میں یہ معاملات اس طرح ہی چلتے رہیں گے۔
مقدمے کا پس منظر
سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کو آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرادنہ حملے میں ایک سو چوالیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں ایک بڑی تعداد طالب علموں کی تھی۔
دو ہزار اٹھارہ میں اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے آرمی پبلک اسکول کا دورہ کیا تھا، جہاں اے پی ایس حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحقین نے چیف جسٹس سے انصاف کی اپیل کی، جس پر انہیں ایک تحریری درخواست دی گئی۔
مئی دو ہزار اٹھارہ میں چیف جسٹس نے ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا لیکن تحریری فیصلہ نہ آنے کی وجہ سے یہ کمیشن نہ بن سکا اور پھر اکتوبر دو ہزار اٹھارہ کو کمیشن بنانے کا حکم دیا گیا۔ اس کمیشن نے جولائی دو ہزار بییس میں اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی۔ رپورٹ میں سکیورٹی کے معاملات کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے۔ اس سال اکتوبر میں سپریم کورٹ نے یہ حکم دیا تھا کہ جن افراد نے اس حملے میں سکیورٹی کے حوالے سے غفلت برتی ہے، ان کی ذمہ داری کا تعین کیا جائے۔