نیپال زلزلہ: ایک ہزار یورپی باشندے تاحال لاپتہ
1 مئی 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق زلزلے کے وقت نیپال میں موجود زیادہ تر یورپی باشندے یا تو ماؤنٹ ایورسٹ کے علاقے میں کوہ پیمائی کے لیے موجود تھے یا پھر لنگ ٹنگ رینج کے دور دراز علاقے میں ٹریکنگ کر رہے تھے۔ یہ علاقہ زلزلے کے مرکز کے قریب ہی واقع ہے۔
نیپال کے لیے یورپی یونین کے سفارت کار رینسے ٹیرنک نے آج جمعہ یکم مئی کو صحافیوں کو بتایا، ’’یہ لوگ لاپتہ ہیں مگر ہمیں ابھی تک ان کی صورتحال کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک اور سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس بات کے روشن امکانات ہیں کہ زیادہ تر لوگ محفوظ ہوں گے اور انہیں تلاش کر لیا جائے گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ دشوار گزار راستوں اور متاثرہ علاقوں تک رسائی نہ ہونے کے سبب ابھی تک ان کی صورتحال کے بارے میں اطلاعات نہیں ہیں۔
نیپال میں گزشتہ 80 برس کے عرصے کے دوران آنے والے اس شدید ترین زلزلے کے باعث بہت زیادہ نقصانات ہوئے ہیں اور امدادی ٹیمیں ابھی تک دور دراز اور دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں پہنچنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
نیپال میں 25 اپریل کو 7.8 کی شدت سے آنے والے اس زلزلے کے نتیجے میں اب تک تصدیق شدہ ہلاکتوں کی تعداد 6200 سے تجازور کر چکی ہے جبکہ ہمسایہ ممالک بھارت اور چین میں بھی اس زلزلے کے بعد 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
انٹرنیشنل ریڈکراس کی طرف سے آج جمعہ کے روز بتایا گیا ہےکہ کھٹمنڈو کے شمال مشرقی علاقے سندھوپال چوک کے علاقے میں 90 فیصد مکانات تباہ ہو گئے ہیں۔ ریڈکراس کے ایشیا کے لیے سربراہ جگن چھاپاگین Jagan Chapagain کے بقول، ’’ہسپتال تباہ ہو چکے ہیں اور لوگ اپنے پیاروں کی زندگی کی امید میں مٹی اور ملبے کو ہاتھوں سے ہی کھودنے میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘
ادھر اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اس ہولناک زلزلے کے نتیجے میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد گھر تباہ ہوئے ہیں اور مزید پچاسی ہزار کو نقصان پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ہنگامی امداد ’او سی ایچ اے‘ کے مطابق گزرتے وقت کے ساتھ ملبے سے مزید افراد کے زندہ نکلنے کی امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔ اس ادارے نے مزید بتایا کہ تلاش کا کام اب اپنے اختتام کے قریب ہے۔ گزشتہ روز بھی ملبے سے دو افراد کو زندہ نکالا گیا تھا۔ طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ دس ہزار سے زائد افراد زخمی ہیں۔