نیب ترمیمی قانون کا مستقبل، متعدد سیاسی کیرئیر داؤ پر
1 ستمبر 2023پاکستانی سپریم کورٹ میں نیب کے ترمیمی قانون کے خلاف زیر سماعت درخواستوں کی وجہ سے متعدد سیاستدانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس بے چینی کا سبب ملک کی سب سے بڑی عدالت میں آنے کے بعد اس قانون کے مستقبل سے جڑی غیر یقینی ہے۔ اگر اس قانون کے مخالفین عدالت کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ قومی احتساب بیوروکا یہ ترمیمی قانون مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے لایا گیا ہے اور عدالت ا س موقف کو تسلیم کرتے ہوئے یہ قانون کالعدم قرار دے دیتی ہے تو خدشہ ہے کہ کئی سیاست دان اس کی زد میں آسکتے ہیں۔
اس قانون کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ ن لیگ، پی پی پی سمیت دیگر کئی جماعتوں سے تعلق رکھنے سیاست دانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے۔
ناقدین کی رائے میں گزشتہ برس پی ڈی ایم کی حکومت نے نیب قانون میں جو ترمیم کی تھی، اس سے نیب کا دائرہ کار سکٹر چکا ہے۔ اس ترمیمی قانون کے مطابق نیب کی عدالتیں صرف ان مقدمات کی سماعت کر سکیں گی، جس میں 50 کروڑ سے زائد مالیت کی کرپشن کی گئی ہو۔ اس رقم سے زائد کے مقدمات دوسری عدالتوں یا اداروں کو منتقل ہو جائیں گے۔
سیاست دانوں کا فائدہ؟
سپریم کورٹ اور نیب عدالتوں کی رپورٹنگ کرنے والے سینئیر رپورٹر حسنات ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نیب میں مقدمات تفتیش، انکوائری اور ٹرائل کے اسٹیج پر ہوتے ہیں۔ نگران وزیر اعظم کے خلاف بھی مقدمہ تفتیش کی اسیٹج پر تھا۔ اگر اس قانون کو جزوی طور پہ غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے، تو بہت سارے سیاست دان بچ سکتے ہیں لیکن اگر اس کو مکمل طور پر غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے تو پھر موجودہ نگراں وزیراعظم کاکڑ بھی زد میں آئیں گے۔‘‘
حسنات ملک کا کہنا ہے کہ اس قانون سے مستفید ہونے والے سیاستدانوں کی اکثریت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے ہے تاہم دوسری جماعتوں کے ارکان کو بھی اس سے فائدہ ہوا ہے۔''مریم نواز، آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، اسحاق ڈار، خواجہ آ اصف، خواجہ سعد رفیق، جاوید لطیف، مخدوم خسرو بختیار، عامر محمود کیانی، اکرم درانی، سلیم مانڈوی والا، نور عالم خان، نواب اسلم رئیسانی، ڈاکٹرمالک بلوچ، ثنا اللہ زہری، منظور وسان، شرجیل میمن، امیر مقام، لیاقت جتوئی، گہرام بگٹی، جعفر خان مندوخیل اور گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ بھی اس کی زد میں آئیں گے۔‘‘
حسنات ملک کے مطابق 90 فیصد مقدمات میں اس قانون میں ترمیم سے مختلف افراد کو فائدہ ہوگا.
غیر یقینی صورتحال
اسی دوران بعض سیاستدانوں کے بیرون ملک جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نیب قانون سے متعلق عدالتی فیصلے کے ممکنہ منفی اثرات سے بچنے کے لیے پیش بندی کر رہے ہیں۔ تاہم طویل عرصے سے لندن میں مقیم مسلم لیگ نون کے رہنما نواز شریف کے حامی بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ نیب قانون کے عدالت میں چیلنج ہونے کی وجہ سے ان کے قائد کا بیرون ملک قیام طوالت کا شکار ہو رہا ہے۔
ن لیگ کے رہنما اور سابق گورنر خیبر پختون خواہ اقبال ظفر جھگڑا کا کہنا ہے کہ نواز شریف مقدمات یا جیل سے نہیں ڈرتے۔ تاہم انہیں پارٹی نے انتظار کرنے کا کہا ہے۔ اقبال ظفر جھگڑا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں خدشہ ہے کہ موجودہ سپریم کورٹ نیب ترمیمی قانون کے حوالے سے کوئی غلط فیصلہ دے گی جس سے نواز شریف صاحب کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اس لیے ہم اس فیصلے کا انتظار کریں گے۔‘‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک پی پی پی کے رہنما نے ڈی ڈبلیو کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ''پی پی پی نے اسٹیبلشمنٹ کو ٹف ٹائم دینا شروع کردیا ہے، جس کی وجہ سے نیب کے قوانین کو پھر استعمال کیا جائے گا۔ قومی امکان ہے کہ نیب ترمیمی قانون کالعدم ہوجائے اور ہمارے خلاف انتقامی کارروائی شروع ہوجائے۔ اس لئے رہنما باہر جارہے ہیں۔‘‘
کوئی خوف نہیں
تاہم پی پی پی کی سابق سینیٹر سحر کامران کا دعویٰ ہے کہ پارٹی نیب ترمیمی قانون کو کالعدم قرار دیے جانے سے خوفزدہ نہیں ہے۔ انہوں نے ڈبلیو کو بتایا، ''آصف علی زرداری، فریال تالپور اور خورشید سمیت کئی پارٹی رہنماوں کو جیل میں رکھا گیا۔ لیکن ان پر کوئی بھی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ انہیں علاج ومعالجے سے محروم رکھا گیا اور نیب چیئرمین جاوید اقبال کو ہمارے خلاف استعمال کیا گیا لیکن ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر قانون کالعدم ہوجاتا ہے تو ہم عدالتوں کا سامنا کرینگے۔ ''ہم نے پہلے بھی عدالتوں کا سامنا کیا اور تمام ظلم وستم کے باوجود فوجی تنصیبات پر حملے نہیں کیے۔ سرکاری املاک یا گرین بیلٹ کو آگ نہیں لگائی۔‘‘
ترمیمی قانون کا دفاع
گزشتہ برس جب نیب کا ترمیمی قانون منظور ہوا تو اس کی بہت مخالفت ہوئی تھی۔ تاہم کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم درست تھیں۔ معروف قانون دان مسعود احمد ملک کا کہنا ہے کہ یہ بات صحیح ہے کہ ان قوانین میں ترامیم اشرافیہ نے اپنے مفادات کے لیے کی تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لیکن ترامیم آئین کے مطابق تھیں کیونکہ آئین کے تحت 90 دن کا جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جا سکتا، جو پہلے نیب قانون کا حصہ تھا۔ اتنا ریمانڈ صرف اس صورت میں دیا جا سکتا ہے جب ملزم کے خلاف ایسے شواہد ہوں جو اس کے جرم کو ثابت کرتے ہوں۔‘‘
کرپشن انڈیکس میں پاکستان کا نمبر
کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے والے ممالک کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کافی نچلے درجے پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق کرپشن کے خلاف جدو جہد کرنے والے ممالک میں پاکستان کی رینکنگ 140 ویں نمبر پر ہے۔ بد عنوانی کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھانے والے ممالک کی لسٹ میں بھی پاکستان کا اسکور بہت کم ہے۔ انڈیکس لسٹ 2022 ء کے مطابق پاکستان کا اسکور اس حوالے سے صرف 23 ہے جبکہ اسی لسٹ میں جاپان کا اسکور 73 اور غریب ممالک جیسے نیپال، پانامہ اور پیراگوئے کا اسکور بھی پاکستان سے بہتر ہے۔