نيونازی گروہ کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی ياد ميں تقريب
23 فروری 2012جرمن دارالحکومت برلن ميں سن 2000 سے لے کر سن 2006 تک نو غيرملکيوں اور ايک خاتون پوليس افسر کے ايک نيو نازی گروہ کے ہاتھوں قتل پر آج ايک ياد گاری تقريب منعقد ہوئی۔ اس تقريب ميں تقرير کرتے ہوئے جرمن چانسلر انگيلا ميرکل نے کہا کہ يہ قتل ہمارے ملک کے ليے باعث شرم ہيں۔ انہوں نے کہا کہ قتل کی ان وارداتوں کو ان غيرملکيوں کے خاندانی يا گروہی جھگڑوں يا مجرمانہ سرگرميوں ميں ملوث ہونے کا نتيجہ سمجھا گيا، حتٰی کہ ايک عرصے تک خود مقتولين کے خاندان کے افراد پر بھی شبہ ظاہر کيا جاتا رہا۔ چانسلر میرکل نے کہا کہ شبے کے سايے ميں بسر کئے جانے والے يہ برس متاثرين کے ليے انتہائی اذيتناک رہے ہوں گے جس پر وہ معافی کی خواستگار ہيں: ''يہ برس آپ کے ليے ايک بھيانک خواب رہے ہوں گے۔ اس پر ميں معافی کی درخواست کرتی ہوں۔‘‘
سن 2000 سے لے کر سن 2006 تک ملک کے مختلف حصوں میں غير ملکی پس منظر رکھنے والے افراد اور ايک خاتون پولیس افسر کو قتل کرنے والے نيونازی دہشت گرد گروہ کے قاتل سن 2011 تک روپوش رہنے ميں کامياب رہے جس کی اصل وجوہات کی تحقيقات بھی ضروری ہے۔ پچھلے سال، بالکل اتفاقيہ طور پر اس گروہ کا سراغ ملا تھا۔
چانسلر ميرکل نے کہا کہ جرمنی ميں بہت کم ہی لوگ اس کو ممکن سمجھتے تھے کہ ايک نيونازی گروپ اتنی بیباکی سے قتل کرنے ميں کامياب ہو سکتا تھا۔ قتل کے سلسلے ميں نيو نازی اور دائيں بازو کے انتہا پسندوں پر شبہ ہی نہيں کيا گيا اور اس لئے بھی وہ چھپے رہنے ميں کامياب ہو سکے۔
چانسلر ميرکل نے تقريب کے 1200 شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مقتولين کے اہل خاندان اور دوستوں کے غم اور دکھ کا ازالہ کوئی بھی نہيں کر سکتا ليکن ہم اُن سے آج يہ کہہ سکتے ہيں کہ آپ اس غم ميں اکيلے نہيں۔ ہم بھی اسے محسوس کرتے ہيں اور اس ميں آپ کے ساتھ شريک ہيں۔ انہوں نے ان وارداتوں کی مکمل تحقيقات کا وعدہ کيا۔
جرمنی ميں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے چيئرمين آئيمن موزائيک نے کہا کہ ان وارداتوں کی سياسی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، اس کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ نسل پرست دہشت گردی کے شديد مسئلے کو ماضی ميں اکثر معمولی سمجھ کرنظر انداز کيا جاتا رہا ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی / خبر رساں ادارے
ادارت: حماد کيانی