نسلی، مذہبی تنازعات اور بھارت کو درپیش خطرات
14 اگست 2013اس سال مئی میں بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں حکمران کانگریس پارٹی کے کئی سرکردہ علاقائی سیاستدان ایک انتخابی ریلی سے واپس لوٹ رہے تھے کہ ماؤ نواز باغیوں کے ایک بڑے خونریز حملے میں 27 سیاستدان ہلاک اور ایک درجن سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اس واقعے نے اسی ریاست میں 2010ء میں کیے گئے اس حملے کی یاد تازہ کر دی تھی، جب ماؤ نواز باغیوں نے 70 سے زائد پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔
وزیر اعظم منموہن سنگھ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ بھارت میں داخلی سلامتی کو درپیش سب سے بڑا خطرہ ماؤ نواز باغی ہیں۔ مشرق میں جھاڑ کھنڈ اور مغربی بنگال، وسطی بھارت میں چھتیس گڑھ اور جنوب میں آندھرا پردیش وہ یونین ریاستیں ہیں، جو بائیں بازو کے ان انتہا پسندوں کے خاص گڑھ سمجھی جاتی ہیں۔
نئی دہلی حکومت کا اندازہ ہے کہ ان ماؤ نواز باغی تحریکوں کے مسلح جنگجوؤں کی تعداد 20 ہزار ہے اور ان کے تشدد پر آمادہ ساتھیوں اور ہمدردوں کی تعداد 50 ہزار کے قریب۔ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق ماؤ پرست باغیوں کے دہشت گردانہ حملوں میں اب تک 10 ہزار سے زائد انسان مارے جا چکے ہیں۔
ان ماؤ نواز عسکریت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ وہ گزشتہ 40 برسوں سے ملک کی غریب اور حقوق سے محروم کر دی گئی آبادی کے لیے انصاف کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، خاص طور پر بھارت کے ذات پات کے نظام میں سب سے نچلے درجے کے شہری سمجھے جانے والے دلت اور مختلف علاقوں کے قدیم مقامی باشندوں کے لیے انصاف کی جنگ۔
یہ باغی ان غیر ترقی یافتہ یا کم ترقی یافتہ علاقوں میں زیادہ فعال ہیں، جنہیں ابھی تک ملکی اقتصادی ترقی سے زیادہ یا کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ اسی لیے متاثرہ علاقوں کی مقامی آبادی میں باغیوں کے لیے پائی جانے والی ہمدردی بھی قابل فہم ہے۔
نئی دہلی میں مقیم معروف ماہر سماجیات یوگندر یادو نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں بھارتی عوام میں پائے جانے والے اس احساس کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ ملکی سیاستدان عوام کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ اس کے علاوہ پسماندہ طبقے کی سوچ یہ ہے کہ اس کے مسائل کو کوئی سمجھتا ہی نہیں۔
ماہر سماجیات یوگندر یادوکے بقول ایک ارب 20 کروڑ کی آبادی والے بھارت میں مختلف سیاسی پارٹیاں اور سماجی گروپ ثقافتی، نسلی اور مذہبی تنوع کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بدعنوانی اور نوکر شاہی بھی دو ایسے عوامل ہیں جن کے باعث عام شہریوں کے جمہوریت پر اعتماد کو دھچکا لگتا ہے۔
1980ء کے عشرے میں اس دور کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے کہا تھا کہ ہر وہ روپیہ جو حکومت عمومی ترقی کے لیے خرچ کرتی ہے، اس میں سے صرف دس پیسے ہی دیہی علاقوں تک پہنچتے ہیں۔
اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فوری طور پر بھارت کے ان مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ تبدیلی کے لیے پورے ملک، خاص طور پر دیہی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ تعلیم، سماجی شعور اور تکنیکی پیش رفت کی ضرورت ہے اور یہ سارے طویل المدتی کام ہیں۔