نئے عراقی وزیر اعظم کو درپیش چیلنجز
5 اگست 2014نئے عراقی وزیر اعظم کو سب سے پہلے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ ’دولتِ اسلامیہ عراق و شام‘ کے عسکریت پسند عراقی سرزمین کے مزید حصوں کو اپنے تسلط میں نہ لا سکیں۔ ساتھ ساتھ اُنہیں کردوں کے خلاف اپنے ملک کی سالمیت کا دفاع کرنا ہو گا، جوملک کے شمال میں اپنے خود مختار علاقے کو ایک آزاد ملک کی شکل دینا چاہتے ہیں۔
اس مقصد کے حصول کے لیے انہیں سب سے پہلے ملکی آبادی کے تینوں بڑے گروپوں یعنی سنّیوں، شیعوں اور کردوں کو ایک میز پر لا کر قومی مکالمت کا عمل شروع کرنا ہو گا۔ یہ مکالمت ایک ایسے مصالحتی فارمولے پر منتج ہونی چاہیے، جو تینوں گروپوں کے لیے قابل قبول ہو۔
اہم ترین نزاعی نکات کا تعلق سیاسی نمائندگی، قومی وسائل کی تقسیم اور ثقافتی و مذہبی شناخت سے ہے۔ اگر نئے وزیر اعظم ان مسائل کو اتفاقِ رائے سے حل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ عراق کو طویل المدتی بنیادوں پر اُس کی موجودہ شکل میں برقرار رکھنے کی امید کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو خطرہ ہے کہ عراق تین حصوں میں تقسیم ہو جائے گا اور یوں یہ ریاست موجودہ شکل میں وجود میں آنے کے ایک سو سال بعد ختم بھی ہو جائے گی۔
بہت سے حلقے تاحال وزیر اعظم نوری المالکی کو عراق کے موجودہ ابتر حالات کے لیے قصور وار گردانتے ہیں۔ المالکی کے ساتھ کوئی سیاسی سمجھوتہ نہ ہونے پر سنّی آبادی کتنی پریشان ہے، اس کا اندازہ اس امر کے ساتھ لگایا جا سکتا ہے کہ سنّی اکثریت والے شمال مغربی علاقوں کی سنّی آبادی اب داعش کے جہادیوں کے ساتھ مل گئی ہے۔ المالکی نے تب بھی کوئی سمجھوتہ کرنے کی بجائے سنّی صوبوں میں فوجی دستے بھیج دیے، جنہوں نے جہادیوں کا سامنا کرنے کی بجائے سنّی آبادی کو ہی دہشت گردوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے کے شبے میں نشانے پر رکھ لیا۔ ایسے میں سنّی آبادی ریاست کو زیادہ سے زیادہ ایک دشمن کے طور پر دیکھنے لگی ہے اور اُن کی اس سوچ کو بدلنا کافی مشکل ہو گا۔ اسی دوران ماہرین کا اندازہ ہے کہ داعش کے جنگجو زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کر لیں گے۔
اب تک المالکی کی پشت پناہی کرنے والے امریکی اب عراقی فوج کو نئے ہتھیار دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ ایسے میں بظاہر عراقی فوج اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ داعش کے بھاری ہتھیاروں سے لیس جنگجوؤں کو پیچھے دھکیل سکے۔ امریکا میں وہ لابی زیادہ طاقتور ہوتی جا رہی ہے، جو عراق میں قومی مکالمت کا مطالبہ کر رہی ہے۔
عراقی ’آئل رپورٹ‘ کے مطابق تیل کے دو بڑے کنووں پر قبضہ کرنے کے بعد داعش کے جنگجو آج کل روزانہ ایک تا 1.4 ملین ڈالر مالیت کا تیل برآمد کر رہے ہیں۔ جریدے ’مینا انرجی نیوز اینڈ انیلیسس‘ کے مطابق یہ تیل ایجنٹوں کے ذریعے عراق کے کُرد علاقے کے راستے ترکی اور ایران میں بیچا جا رہا ہے۔ تیل کی فروخت سے ہونے والی اس آمدنی سے ہتھیار خریدے جا رہے ہیں اور جنگجوؤں کو بھی ادائیگی کی جا رہی ہے۔ ایسے میں عراقی فوج کے بہت سے سپاہی بھی جنگجوؤں کے ساتھ مل رہے ہیں۔
نو منتخب عراقی وزیر اعظم کو داعش کے جنگجوؤں کے ساتھ فوجی ہی نہیں بلکہ سیاسی جنگ بھی لڑنا پڑے گی۔ اس کے لیے ضروری ہو گا کہ شیعہ اور سنّی آبادی کے سیاسی اور معاشی مفادات میں توازن پیدا کیا جائے اور یہ قیمت عراقی پارلیمان کو ہی نہیں بلکہ پوری عراقی آبادی کو چکانا پڑے گی۔
ابھی تو نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہی غیر یقینی نظر آ رہا ہے۔ اس عہدے کے لیے نوری المالکی کے ساتھ ساتھ پانچ مزید امیدوار بھی میدان میں ہیں اور منگل پانچ اگست کو ہی ان میں سے کسی ایک کے نام پر اتفاقِ رائے ہو جانا مشکل نظر آتا ہے۔