نئی فلسطینی حکومت امن کے لیے نقصان دِہ ہو گی، اسرائیل
10 فروری 2012خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اسرائیلی وزیر خارجہ ایویگدور لیبرمان کا یہ بیان سفارت کاروں کے حوالے سے بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لیبرمان نے مشرقِ وسطیٰ کے امن مذاکرات کے حوالے سے اقوام متحدہ کے 15 سفیروں کو بریفنگ دی ہے، جن میں آٹھ سلامتی کونسل میں بھی شامل ہیں۔
انہوں نے ان سفیروں سے نیویارک کے ایک ہوٹل میں ملاقات کی ہے۔ اس دوران ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے تنازعے پر بھی بات ہوئی۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مشن کے بیان کے مطابق اس موقع پر لیبرمان نے کہا ہے کہ رواں ہفتے الفتح اور حماس کے گروپوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا ’امن مذاکرات کی پیش رفت یا فلسطینی عوام کی فلاح میں کوئی کردار نہیں۔‘
لیبرمان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے محمود عباس اور حماس کے رہنما خالد مشعل کے ’ذاتی مفادات کی عکاسی‘ ہوتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے: ’’ جب تک حماس اپنی حالیہ پالیسیاں تبدیل نہیں کر لیتی، اسرائیل کے قائم رہنے کے حق کو تسلیم نہیں کرتی اور تنازعے کے حل کے لیے کردار ادا کرنے والے فریقین کی تمام شرائط نہیں مان لیتی، اس وقت تک اسرائیلی ایسی فلسطینی حکومت کو قبول نہیں کرے گا، جس میں حماس شامل ہو۔‘‘
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات ستمبر 2010ء سے رکے ہوئے ہیں۔ فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل فلسطینی علاقوں میں آباد کاری کے منصوبے روکے۔ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کے تنازعے کے حل کے لیے مشروط مذاکرات کو ردّ کرتا ہے۔
خیال رہے فتح پارٹی کے سربراہ محمود عباس اور حماس کے جلا وطن رہنما خالد مشعل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اتحادی حکومت کے معاہدے کے تحت حماس اور الفتح کو عبوری حکومت قائم کرنا ہو گی، جو پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کی تیاری کرے گی، جو مئی میں ہوں گے۔
اس معاہدے کے ردِ عمل میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے محمود عباس کو خبر دار کیا تھا کہ انہیں اسرائیل یا حماس میں سے کسی ایک کے ساتھ امن کا انتخاب کرنا ہو گا۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: افسر اعوان