میانمار میں ’سویلین‘ حکومت کا آغاز
31 مارچ 2011میانمار کے طاقتور جنرل تھان شوے کے فرمان کے تحت دو دہائیوں سے قائم فوجی ٹولے کی حکومت کے خاتمے کا باضابطہ طور پر اعلان کردیا گیا ہے تاہم یہ اعلان بین الاقوامی برادری کو متاثر کرنے میں ناکام رہا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی پارلیمان میں زیادہ تر ریٹائرڈ یا حاضر فوجی افسران موجود ہیں۔ ان انتخابات کے بعد کئی دہائیوں سے اقتدار پہ قابض فوجی جنرلوں کی حکومت کی بے دخلی ایک ضروری عمل تھا۔ اس موقع پر فوجی جنرل تھان شوے نے بھی اپنے عہدے سے سبکدوشی اختیار کر لی ہے۔ ان کی جگہ نئے فوجی کمانڈر جنرل Min Aung Hlaing تعینات کئے گئے ہیں۔
گزشتہ برس کے انتخابات کو میانمار کی جمہوریت پسند جماعتوں اور غیر جانبدار ملکی اور بین الاقوامی مبصرین نے غیر شفّاف قرار دیا تھا۔ نوبل انعام یافتہ جمہوریت پسند رہنما آؤنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ سوچی کو کچھ عرصہ قبل کئی برسوں کی نظر بندی کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔
پارلیمان کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر تھائن سائن نے کہا کہ مغربی ممالک کی جانب سے میانمار پر دھونس دھمکی اب بند ہو جانی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک کو نئی حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور اس کے جمہوریت نواز ہونے کو تسلیم کرنا چاہیے۔
امریکی حکومت نے بدھ کے روز ایک بیان میں میانمار کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی قیدیوں کی رہائی اور میانمار کی حکومت کی جانب سے سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق میانمار میں جابرانہ سیاسی ماحول پر امریکہ کو سخت تشویش ہے۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ میانمار کو چاہیے کہ وہ جمہوریت کے لیے ’حقیقی‘ اقدامت کرے۔ بان کی مون نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ایک موقع ہے جب میانمار کے حکمران عوامی امنگوں کے مطابق اقدامات کرتے ہوئے پچاس سالہ فوجی حکومت کے حقیقی خاتمے کے لیے ابتدا کریں۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عابد حسین