’مہاجرین کے راستے روکنے کی کوششیں کامیاب‘
21 اپریل 2016خبر رساں ادارے روئٹرز نے نیٹو کے سربراہ ژینس اسٹولٹن برگ کے حوالے سے بتایا ہے کہ یورپی یونین اور ترکی کی مشترکہ کوششوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے مہاجرین کے راستے مکمل طور پر بند کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس تناظر میں ابھی تک اختیار کی جانے والی پالیسی کامیاب رہی ہے۔
اکیس اپریل بروز جمعرات ترک درالحکومت انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسٹولٹن برگ نے کہا کہ ترکی اور یورپی یونین کی کوششوں کی وجہ سے بحیرہ ایجیئن کے راستے ترکی سے یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
ترک وزیر خارجہ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں اسٹولٹن برگ نے یورپی یونین اور ترکی کی ڈیل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مزید رابطہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ مہاجرین کے بحران پر قابو پانے میں مکمل طور پر پیشرفت ہو سکے۔
نیٹو کے سربراہ نے مزید کہا کہ مہاجرین کا یہ بحران تقاضا کرتا ہے کہ شامی بحران کا حل ہونا کتنا ضروری ہے۔ یورپ پہنچنے والے زیادہ تر مہاجرین کا تعلق شام سے ہی ہے، جو وہاں جاری خانہ جنگی سے فرار ہو کر پرامن مقامات کا رخ کر رہے ہیں۔
اسٹولٹن برگ کے مطابق نیٹو کی کوشش ہے کہ وہ انسانوں کے اسمگلروں کے نیٹ ورک کو ناکارہ بنا دے۔ اس تناظر میں نیٹو نے کئی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔
تاہم انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ان اسمگلروں کے خلاف کارروائی میں لچک ہونا چاہیے کیونکہ یہ انسانوں کی اسمگلنگ کے راستوں کو فوری طور پر تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین ڈیل کے تحت طے پایا ہے کہ بیس مارچ کے بعد بحیرہ ایجیئن سے یونان پہنچنے والے مہاجرین اگر باقاعدہ طور پر پناہ کی درخواستیں دائر نہیں کرتے تو انہیں زبردستی ترکی واپس روانہ کر دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ترکی یہ امر بھی یقینی بنا رہا ہے کہ یہ مہاجرین ترکی سے یونان نہ جا سکیں۔
ادھر ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) نے کہا ہے کہ گزشتہ دس دنوں کے دوران یومیہ ترکی سے یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں ستّر فیصد کمی نوٹ کی گئی ہے۔ اس ڈیل سے قبل بحیرہ ایجئین کے راستے ترکی سے یونان پہنچنے والے مہاجرین کی یومیہ تعداد پندرہ سو تھی۔