مہاجرین کی کہانی، ’’امید کا دوسرا رُخ‘‘
فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈائریکٹر اکی کاؤرِس میکی نے برلن فلم فیسٹیول میں اس فلم پر سلور بیئر حاصل کیا تھا۔ اب یہ فلم جرمن سینما گھروں میں ریلیز کی جا رہی ہے۔
دو افراد ایک فلم
ہدایت کار کاؤرِس میکی کی فلمیں چبھنے والے کرداروں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس تازہ فلم میں وہ ایک بار پھر دو زبردست کردار تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک شامی مہاجر خالد علی کا کردار ہے، جسے شیروان حاجی (بائیں جانب) نے ادا کیا اور دوسرا والڈیمار وِکسٹروم کا کردار ہے، جسے زاکاری کوسمانین نے نبھایا۔
کامیاب فلم ساز
فروری 2017 میں 67ویں برلن فلم فیسٹیول میں اس فنِش فلم ساز کو ’’دا ادر سائیڈ آف ہوپ‘‘ یا ’’امید کا دوسرا رُخ‘‘ پر سلور بیئر ایوارڈ ملا۔
فن لینڈ کی مہمان نوازی
اس فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر خطرناک راستوں سے دیگر ممالک تک پہنچنے والے مہاجرین کیسا محسوس کرتے ہیں۔ اس میں مہمان نوازی کے مناظر بھی دکھائے گئے ہیں، جب فلم کے شامی مہاجر کردار کو ایک ریستوران میں کام کے لیے خوش آمدید کہنے والے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
مشکلات کی ترجمانی
فلم کے امید بکھیرتے رنگوں کے ساتھ ساتھ شامی مہاجرین کے فن لینڈ میں ان تکلیف دہ تجربات کو بھی دکھایا گیا ہے، جو سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے اور فن لینڈ میں نیونازیوں کی طرف سے ایک مہاجرین کیمپ پر حملے کی صورت میں ہے۔
کاؤرِس میکی کا اسٹائل
اس فلم میں ہدایت کار کاؤرِس میکی کا روایتی رنگ نظر آتا ہے، جو فلم میں سنیما کی تاریخ کے حوالے، مذاق اور سنجیدگی کا امتزاج، اچھی اداکاری اور درست اور اصل موسیقی جیسے شعبوں میں مضبوطی کی صورت میں ہے۔
برلن میں تعریف
برلن فلم فیسٹیول میں یہ فلم پیش کی گئی تھی، تو اس نے ناقدین اور عوام کی توجہ فوراﹰ ہی حاصل کر لی۔ یہ فلم قہقہوں کے ساتھ ساتھ مہاجرین کے مسائل اور زندگیوں کو تفصیل سے پیش کرتی ہے۔
کاؤرِس میکی کی گزشتہ فلم
کاؤرِس میکی نے مہاجرت ہی کے موضوع پر اس سے قبل بھی فلم بنائی تھی۔ اس وقت یورپ کو مشرقِ وسطیٰ سے مہاجرین کے اتنے بڑے بہاؤ کا سامنا نہیں تھا۔ سن 2011ء میں کاؤرِس میکی نے اپنی فلم ’لے ہاورے‘ نمائش کے لیے پیش کی تھی۔ اس فلم میں افریقہ سے ہجرت کرنے والے ایک لکھاری کی کہانی پیش کی گئی تھی، جو یورپ پہنچا اور موچی کا کام شروع کیا۔