1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کا بحران، ناروے نے روسی سرحد پر فولادی باڑ لگا دی

عاطف توقیر25 اگست 2016

ناروے آرکٹک کے خطے میں روس کے ساتھ لگنے والی سرحد پر فولادی باڑ کی تنصیب میں مصروف ہے، تاکہ اس سرد علاقے سے مہاجرین ناروے میں داخل نہ ہو پائیں۔ گزشتہ برس مہاجرین نے یورپی ممالک پہنچنے کے لیے یہ راستہ بھی استعمال کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1JpXV
Russland Norwegen Flüchtlinge aus Syrien Grenze
تصویر: Getty Images/AFP/NTB Scanpix/C. Poppe

ناروے کی جانب سے دنیا کے سرد ترین خطوں میں شمار ہونے والے اس سرحدی مقام پر دو سو میٹر طویل اور ساڑھے تین میٹر اونچی اس فولادی باڑ کی تعمیر پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تنقید کی ہے۔ اس سے یہ خدشات بھی پیدا ہو گئے ہیں کہ ناروے اور روس کے مابین تعلقات بھی کشیدہ ہو سکتے ہیں۔

یورپ کے پاسپورٹ فری شینگن زون کی اس شمالی سرحد پر سکیورٹی میں بھی خاصا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ شمالی یورپی ممالک کے بارے میں عمومی رائے آج تک یہی رہی ہے کہ وہ مہاجرین کو قبول کرنے کے اعتبار سے فراخ دلانہ رویے کے حامل ہیں، تاہم اب روس کے ساتھ لگنے والی اس سرحد پر ایک اونچی باڑ کی تعمیر ناورے کے بدلتے نکتہ نظر کی عکاسی بھی کرتی ہے۔

اس سرحد کا استعمال کر کے گزشتہ برس ساڑھے پانچ ہزار مہاجرین ناروے پہنچے تھے، تاہم ناروے، سویڈن اور ڈنمارک جیسے شمالی یورپی ممالک میں اب مہاجرین کے حوالے سے عوامی رائے خاصی سخت ہو چکی ہے۔ ان ممالک کو ’ہیومینیٹیرین سپر پاورز‘ قرار دیا جاتا تھا، لیکن ان تمام ممالک نے بھی اپنی سرحدوں پر چیکنگ کے نظام کو کڑا اور ملک میں سیاسی پناہ سے متعلق قوانین کو سخت بنا دیا ہے۔

Norwegen Flüchtlinge an der Grenze zu Russland
اس مقام سے بھی ساڑھے پانچ ہزار مہاجرین یورپ میں داخل ہوئے تھےتصویر: Getty Images/AFP/C. Poppe

مہاجرین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور اپوزیشن سیاست دانوں کا تاہم کہنا ہے کہ اس باڑ کی تعمیر جان کے خطرے میں مبتلا افراد کو ملک میں داخلے سے روکنے کے ساتھ ساتھ روس کے ساتھ تعلقات میں بھی کشیدگی کا باعث بنے گی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان قدرے بہتر تعلقات قائم ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ یہ باڑ رواں موسم سرما سے قبل قائم کر دی جائے گی اور اس طرح مہاجرین کے لیے اس برفیلے اور جنگلاتی علاقے کو عبور کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ روس اور ناروے کی جانب سے مہاجرین کو اس راستے کے استعمال سے روکنے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ مہاجرین کے مطابق بحیرہء روم عبور کرنے کے مقابلے میں یہ راستہ کسی حد تک کم خطرناک ہے۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ رواں برس اب تک اس راستے کے ذریعے شمالی یورپ پہنچنے اور سیاسی پناہ کی درخواست دینے کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔