مہاجرین کا بحران، لیسبوس میں سیاحت کی صنعت کو شدید نقصان
24 جولائی 2016گزشتہ برس جب مہاجرین کا بحران اپنی شدت پر تھا، تو بحیرہ ایجیئن کے کنارے آباد اس جزیرے کے باسیوں نے انتہائی بردباری اور حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں پہنچنے والے مہاجرین کی ہر ممکن طریقے سے مدد کی۔
اسی باعث پوپ فرانس اور اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے لیسبوس کے مقامی لوگوں کو دل کھول کر سراہا جبکہ اردن کی ملکہ رانیا اور ہالی ووڈ کی اداکارہ انجلینا جولی نے بھی ان کے لیے ستائشی کلمات ادا کیے۔
تاہم عالمی سطح پر یہ ستائشی کلمات لیسبوس کے مقامی رہائشیوں کی مشکلات میں آسانی کا باعث نہ بن سکے۔ اس بحران کے نتیجے میں اس جزیرے میں سیاحت کی صنعت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
اس جزیرے میں اس برس سیاحوں کی تعداد میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے ، جس کی وجہ سے نہ صرف ہوٹلوں کو مالی نقصان ہو رہا ہے بلکہ ایسے کئی کاروباری لوگ بھی پریشان ہیں، جن کی آمدن صرف اسی صنعت سے وابستہ ہے۔
ہوٹل ویران ہو گئے
مولویوس نامی گاؤں میں ایک ریستوان کی مالک ماریلینا نے اے ایف پی کو بتایا، ’’اس سیزن میں ہمیں سخت مشکل کا سامنا ہے۔ یہ ہماری سوچ سے بھی زیادہ بدترین وقت ہے۔‘‘ عمومی طور پر بالخصوص جون میں اس علاقے میں سیاحوں کا رش ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب وہاں ہوٹل خالی ہیں اور ریستوانوں کی کرسیاں ویران پڑی ہیں۔
اس جزیرے کے زیادہ تر ہوٹل مالکان کا کہنا ہے کہ اس سیزن میں ان کے ہوٹلوں کے دس میں سے نو کمرے خالی ہی رہتے ہیں۔ اس صورتحال کو اس جزیرے کے لوگوں کے لیے ایک تکلیف دہ مالی نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔ مقامی سطح پر قائم چیمپبر آف کامرس کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ جون کے مقابلے میں اس مرتبہ اس ماہ میں لیسبوس میں سیاحت کی صنعت کو چونسٹھ فیصد نقصان ہوا ہے۔
چیمپبر آف کامرس سے وابستہ حکومتی اہلکار وینجلیس میرسیناس کے مطابق، ’یہ نا انصافی ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ مہاجرت کے بحران میں لیسبوس کے رہائشیوں کے ردعمل کی تعریف کرنے والوں کو اب اس جزیرے پر سیاحت کی غرض سے بھی آنا چاہیے۔
گزشتہ برس آٹھ لاکھ مہاجرین اور تارکین وطن لیسبوس سے ہوتے ہوئے دیگر یورپی ممالک گئے تھے۔ اس مشکل وقت میں اس جزیرے کے باسیوں نے ان مہاجرین کو ہر ممکن مدد فراہم کی تھی۔
ایک مقامی ہوٹل کے مالک تھیوڈورس واتیس نے گزشتہ سال کی کہانیاں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ چار سو مہاجرین ایک ساتھ ہی وہاں پہنچ گئے تھے۔ تب اس چوہتر سالہ بزرگ یونانی باشندے نے اپنی وین کے ذریعے انہیں ساحل سمندر سے رجسٹریشن سینٹرز پہنچایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تب وہاں کوئی امدادی کارکن یا حکومتی اہلکار نہیں تھا بلکہ ان مہاجرین کو انہوں نے خود ہی کھانا اور کپڑے فراہم کیے تھے۔
’لیسبوس سیاحوں کا منتظر ہے‘
ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے نتیجے میں یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہو چکی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جزیرے پر جو تباہی ہونا تھی وہ ہو چکی ہے۔ اگرچہ اس برس اس جزیرے کی صورتحال بہتر ہو چکی ہے لیکن میڈیا پر نشر کی جانے والی پرانی تصاویر کی وجہ سے سیاح اب اس مقام پر جانے سے گریز کر رہے ہیں۔
ماریلینا کا کہنا ہے کہ اب اس جزیرے کی مکمل صفائی ہو چکی ہے۔ میڈیا وہ تصاویر اب بھی شائع کر رہا ہے، جو گزشتہ برس کی ہیں اور جن میں ساحل سمندر پر لائف جیکٹس اور ٹوٹی پھوٹی کشتیوں کی بھرمار نظر آتی ہے۔
ماریلینا کے بقول میڈیا پر اس طرح کی خبریں اور تصاویر کی وجہ سے لوگ اب بھی سمجھتے ہیں کہ اس مقام پر جانا فی الحال مناسب نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا تاہم اب صورتحال بدل چکی ہے اور یہاں تمام سہولیات بحال ہو چکی ہیں۔