مہاجرت کے سفر ميں قدم قدم پر موت کا سامنا
14 جون 2017گيمبيا، آئيوری کوسٹ، سينيگال ہو يا پھر نائجيريا، غير قانونی تارکين کا يورپ تک کا سفر ’ہسٹلرز‘ سے شروع ہوتا ہے۔ يہ نام ان افراد کے ليے استعمال ہوتا ہے، جو ابتداء ميں خواہشمند افراد سے رقم لے کر اُن کے سفر کا بندوبست کرتے ہيں۔ مہاجرين کے ساتھ دھوکہ دہی کا آغاز تو ان ’ہسٹلرز‘ کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ وہ تارکين وطن کو يورپ کے بارے ميں جھوٹے خواب دکھا کر ان سے رقم وصول کرتے ہيں۔ پناہ گزين عموماً نہ تو سفر کے دوران پيش آنے والی مشکلات سے واقف ہوتے ہيں اور نہ ہی ان حالات سے جن کا انہيں يورپ آمد پر سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کئی افريقی ممالک ميں سرگرم ’ہسٹلرز‘ مہاجرين سے يورپ تک کے سفر کے ليے تين سو سے پندرہ سو يورو کے درميان معاوضہ طلب کرتے ہيں۔ تاہم اکثر و بيشتر يہ سفر نائجر ميں صحرائے اعظم کے کنارے واقع شہر اگاديز يا پھر ليبيا کے کسی شہر ميں اختتام پذير ہو جاتا ہے۔ نيامے حکومت کی کوششوں کے باوجود نائجر يورپ کی جانب غير قانونی ہجرت کے ليے استعمال ہونے والے روٹ کا اہم حصہ ہے۔
غير قانونی ہجرت در اصل ايک ايسا راستہ ہے جس ميں ہر قدم پر مہاجرين کو دھوکے بازی، تشدد حتیٰ کہ موت تک کا خطرہ رہتا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق کئی واقعات ميں تو نائجر آمد سے قبل ہی بے رحم کسٹم و پوليس اہلکار تارکين وطن کو لوٹ ليتے ہيں۔ خبر رساں ادارے اے ايف پی نے اگاديز سے موصولہ رپورٹوں ميں چند عينی شاہدين کے حوالے سے لکھا ہے کہ برکينا فاسو ميں حالات بالخصوص خراب ہيں اور کئی دفعہ مہاجرين کو اس وقت تک تنگ جيلوں ميں رکھا جاتا ہے، جب تک وہ بھتہ ادا نہ کر ديں۔ پھر جب يہ مہاجرين نائجر پہنچ جاتے ہيں تو کئی گزر گاہوں پر آگے بڑھنے کے ليے انہيں چھوٹے چھوٹے ’کميشن‘ ادا کرنے پڑتے ہيں۔ ايک مقامی بس کمپنی کے ايک اہلکار کے بقول مسافروں اور مہاجرين کو تقسيم کر کے مختلف بسوں ميں روانہ کيا جاتا ہے اور متعلقہ حکام کو آگاہ کر ديا جاتا ہے کہ تارکين وطن کس بس میں سفر کر رہے ہيں تاکہ وہ ان سے رقوم بٹور سکيں۔
اگاديز آمد پر مہاجرين کو اسمگلروں کے ہاسٹلوں ميں رکھا جاتا ہے۔ عام طور پر ايسے گھروں ميں پانی و بجلی کی سہوليات تک ميسر نہيں ہوتيں۔ اس مقام تک پہنچنے کے بعد کئی مہاجرين کے پاس وہ رقم ختم ہو جاتی ہے، جو وہ يورپ تک پہنچنے کے ليے گھر سے لے کر نکلے تھے۔ پھر انہيں گھر ٹيلی فون کر کے يا دیگر ذرائع سے اس کا بندوبست کرنا پڑتا ہے يا پھر وہ اگاديز کے ہی ہو کر رہ جاتے ہيں۔ جو پناہ گزين رقم کا انتظام کر ليتے ہيں، وہ ’ہسٹلرز‘ کو ادائیگی کر کے بسوں پر سوار ہو جاتے ہيں۔ چند کيسوں ميں روپے کا انتظام کرنے کے ليے عورتوں کو جسم فروشی تک کرنی پڑتی ہے جبکہ مردوں کو بھی مختلف اقسام کے کام کرنے پڑتے ہيں۔
سفر کے اگلے مرحلے ميں مہاجرين کو ٹرکوں پر لاد ديا جاتا ہے۔ پوليس سے بچنے کے ليے سفر عموماً سورج طلوع ہونے سے قبل شروع ہوتا ہے۔ گرمی کی شدت اور دھول مٹی سے بچنے کے ليے مہاجرين کو دستانے، ٹوپی، دھوپ سے بچنے والے چشمے، جيکٹ اور بہت سارا پانی درکار ہوتا ہے۔ ٹرکوں کے قافلوں ميں تين تا پانچ ٹرک ہوتے ہيں۔ ايک اسمگلر نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتايا کہ بارڈر ساڑھے سات سو کلوميٹر دور ہے اور وہاں پہنچنے ميں تين دن لگتے ہيں۔ اس نے مزيد بتايا، ’’گاڑی مسلسل چلتی رہتی ہے، کھانے پينے يا بيت الخلاء استعمال کرنے کے ليے صرف پانچ پانچ منٹ کے وقفے ليے جاتے ہيں۔‘‘ اس اسمگلر کے بقول سفر ميں چور ڈاکوؤں کا خطرہ بھی دوچار رہتا ہے اور پوليس کا بھی۔ ’’اگر ڈاکو پکڑ ليں اور ہماری گاڑی لے جائيں، تو صحرا ميں تنہا ہونا يقينی موت کے برابر ہے۔‘‘ اسی ماہ عورتوں اور بچوں سميت چواليس افراد صحرا ميں ايسے ہی حالات ميں ہلاک ہو گئے تھے۔
ليبيا پہنچنے والے اکثريتی پناہ گزين سفر کے بارے ميں بھيانک کہانياں سناتے ہيں۔ مگر يورپ تک پہنچنے کے خواب کو حقيقت بنانے کے ليے يہ سب کچھ سہنے کے بعد انہيں وسطی بحيرہ روم کا سفر بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس سال اب تک بحيرہ روم ميں لگ بھگ ڈھائی ہزار تارکين وطن لاپتہ يا ہلاک ہو چکے ہيں۔