مہاجر سے ورلڈ کپ اسٹار
29 جون 2018روس میں جاری فیفا ورلڈ کپ میں ایسے متعدد کھلاڑی بھی شامل ہیں جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر اپنا گھر بار اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے بعض ایسے کھلاڑی ہیں جو اُسی ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں جس نے انہیں پناہ دی۔ بعض دیگر نے اپنے آبائی ملک کی طرف سے ہی کھیلنے کو ترجیح دی ہے۔
لوکا موڈریچ کا بلندی کی جانب سفر کا آغاز اس کے آبائی ملک کروشیا میں جنگ سے ہوا جبکہ نائجیریا کے وکٹور موسز نے 11 برس کی عمر میں اپنا آبائی ملک ایک یتیم بچے کے طور پر چھوڑا۔ فیفا ورلڈ کپ 2018ء میں بہت سے ایسے کھلاڑی شامل ہیں جن کی بطور مہاجر کہانیاں دل کو چھو جانے والی ہیں۔
سوئٹزر لینڈ کی ٹیم میں شامل جیرڈان شاکیری یا فرانسیسی ٹیم کے اسٹیو ماداندا اُن ممالک کی طرف سے کھیل رہے ہیں جنہوں نے انہیں قبول کیا۔ بعض دیگر مثلاﹰ وکٹور موسز جو انگلینڈ میں پلے بڑھے انہوں نے اپنے آبائی ملک نائجیریا کی طرف سے کھیلنے کا فیصلہ کیا۔
آسٹریلیا کے کھلاڑی ڈینیئل ارزانی نے اپنے والدین کے ساتھ بچپن میں ہی اپنے آبائی ملک ایران کو چھوڑ دیا تھا۔ 19 سالہ ارزانی روس میں جاری ورلڈ کپ کا کم عمر ترین کھلاڑی ہے مگر موجودہ مقام تک پہنچنے کے لیے جو اعتماد اُسے درکار تھا وہ دراصل اس نے اپنے آبائی وطن میں ہی حاصل کیا۔ ارزانی کے مطابق، ’’گلیوں میں کھیلتے ہوئے بڑے ہونے کے لیے آپ کے اندر اعتماد کا ہونا ضروری ہے۔‘‘
ارزانی نے آسٹریلیا کے لیے کھیلنے کو اپنے لیے ایک اعزاز قرار دیا، ’’میرا اولین میچ ایک بہت خاص لمحہ تھا۔ ایک ایسے ملک کی نمائندگی کرنا، جس نے ہماری مدد کی، ایک بہت ہی خاص بات ہے۔‘‘
نائجیریا کے مِڈ فیلڈر موسز کے والدین نائجیریا میں ہونے والے مذہبی فسادات میں مارے گئے تھے جس کے بعد انہیں لندن بھیج دیا گیا۔ جہاں ایک انگریز جوڑے نے ان کی پرورش کی۔ موسز کے مطابق، ’’ابتداء میں یہ میرے لیے بہت مشکل تھا کیونکہ میں اچانک ایک کلچر سے دوسرے کلچر میں بھیج دیا گیا تھا۔‘‘
موسز کے مطابق، ’’ایک نوجوان لڑکا ہوتے ہوئے مجھے نئے دوست تلاش کرنا پڑے، جو ایک مشکل کام تھا۔ ابتداء میں تو میں انگریزی زبان بھی نہیں بول سکتا تھا۔‘‘ تاہم جلد ہی انہوں نے کرسٹل پیلس کے ایک کلب کی طرف سے کھیلنا شروع کر دیا اور پھر 2012ء میں ان کا چیلسی کلب کے ساتھ معاہدہ ہو گیا۔ فیفا ورلڈ کپ میں تاہم انہوں نے نائجیریا کی طرف سے میچز کھیلے۔
ا ب ا / ع ا (ڈی پی اے)