ميرکل اور ہارپر کی ملاقات، کريميا کا موضوع سر فہرست
28 مارچ 2014کينيڈين وزير اعظم اسٹيفن ہارپر نے جمعرات 27 مارچ کو جرمنی کا دورہ کيا اور دارالحکومت برلن ميں چانسلر انگيلا ميرکل سے ملاقات کی۔ اِس ملاقات ميں کريميا کا موضوع مرکزی اہميت کا حامل رہا۔ ملاقات کے بعد چانسلر ميرکل نے کہا کہ اگر روس نے يوکرائن ميں اپنی جارحيت جاری رکھی، تو ضرورت پڑنے پر يورپی يونين اضافی اقدامات اٹھا سکتی ہے۔ رپورٹرز سے بات چيت کرتے ہوئے ميرکل نے کہا، ’’ميں اُميد کرتی ہوں کہ ہم اُس مقام تک نہ پہنچيں۔ روس کو تجارت اور ايکسچينج کی ضرورت ہے اور اِسی ليے ماسکو کو اِس سے کافی نقصانات اٹھانا پڑ سکتے ہيں۔‘‘
واضح رہے کہ کريميا کے روس کے ساتھ الحاق کے تناظر ميں يورپی يونين نے گزشتہ ہفتے روس کے 12 مزيد اہلکاروں کے خلاف پابندياں عائد کر دی تھيں، جس کے بعد ماسکو کے کُل 33 اہلکار اب بليک لسٹ پر ہيں۔ اٹھائيس رکنی يورپی بلاک نے يہ بھی کہہ رکھا ہے کہ اگر روس نے يوکرائن ميں اپنی مداخلت ترک نہ کی، تو ماسکو کے خلاف اقتصادی پابنديوں پر غور کيا جا سکتا ہے۔
جرمن چانسلر نے مزيد کہا کہ ايندھن کی ضروريات پوری کرنے کے ليے يورپ کا دارومدار اب بھی کافی حد تک روس پر ہے اور مستقبل ميں توانائی سے متعلق پاليسی کا از سر نو جائزہ ليا جائے گا۔
اِس موقع پر کينيڈا کے وزير اعظم ہارپر نے بھی کہا کہ ترقی يافتہ ممالک کے گروپ ’جی ايٹ‘ ميں روس کی واپس شموليت اُس وقت تک ممکن نہيں، جب تک روس کے صدر ولادی مير پوٹن اپنے رويے ميں تبديلی نہ لائيں۔ کريميا کے روس کے ساتھ الحاق کے تناظر ميں روس کو پچھلے دنوں ’جی ايٹ‘ سے غير معينہ مدت کے ليے خارج کر ديا گيا تھا۔
جمعرات کے روز ميرکل اور ہارپر کے درميان ہونے والی اِس ملاقات ميں يورپی يونين اور کينيڈا کے درميان آزاد تجارت کے مجوزہ معاہدے پر بھی بات چيت ہوئی۔ اِس مجوزہ ڈيل کے تحت آئندہ سات برسوں ميں سامان کی تجارت پر سے 98.4 فيصد ٹيکس ہٹا ديا جائے گا جبکہ صنعتی ٹيکسوں کو بھی ختم کر ديا جانا ہے۔ اسی ڈيل کے تحت يورپی يونين کی نوے فيصد زرعی برآمدات ڈيوٹی فری ہو سکتی ہيں۔ چانسلر ميرکل نے اِس بارے ميں بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈيل کے ذريعے دونوں خطوں ميں نئے مواقع پيدا ہوں گے۔
دريں اثناء جمعرات 27 مارچ کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی ايک قرارداد کے ذريعے کريميا ميں منعقدہ ريفرنڈم کو ناجائز قرار ديتے ہوئے کريميا کے روس کے ساتھ الحاق کو تسليم کرنے سے انکار کر ديا۔ 193 رکنی جنرل اسمبلی ميں ايک سو ارکان نے قرارداد کے حق ميں ووٹ ديا جبکہ صرف گيارہ نے اِس کی مخالفت کی، بقيہ ارکان نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہيں کيا۔
اس قرارداد کا مسودہ يوکرائن نے تيار کيا تھا، جس کی جانب سے اس فيصلے کا خير مقدم کرتے ہوئے روس کے خلاف زيادہ طاقتور، مضبوط اور بين الاقوامی رويہ اختيار کرنے پر زور ديا گيا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ ميں روسی سفير وٹالی چرکين نے اِسے روسی سفارت کاری کے ليے ’اخلاقی کاميابی‘ قرار ديتے ہوئے کہا کہ قريب نصف فيصد اسمبلی نے قرارداد کی حمايت نہيں کی۔