ممبئی میں علامہ اقبال کے یوم وفات پر ایک شاندار تقریب
21 اپریل 2016انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ممبئی کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغِ اردو کے اشتراک سے”اقبال کا تاریخی اور تہذیبی شعور“ کے عنوان سے ایک پروگرام پیش کیا گیا۔
اس پروگرام کی صدارت ڈاکٹر ظہیر قاضی صدر انجمن اسلام اور پروفیسر اشرف رفیع نے کی، جو کہ عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد کی سابق صدر شعبہٴ اردو رہ چکی ہیں۔ عبدالستّار دہلوی نے بھی اقبال پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ اسی موقع پر فیض احمد فیض کی انتخاب و ترتیب دی ہوئی ایک ڈاکو منٹری فلم بھی دکھائی گئی۔ اس موقع پر پروفیسر اشرف رفیع نے کہا کہ اقبال کے تصورات میں گہرائی اور گیرائی ہے اور ان کے فارسی کلام سے بھی استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔ انہوں نے زندگی کے ہر پہلو کو دیکھا ہے اور اقبال کو بار بار یاد کرنا چاہیے۔
علامہ اقبال کی شخصیت کے علمی، ادبی اور شعری پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے عبدالستّار دہلوی نے کہا کہ وہ ایک با کمال شاعر اور فلسفی تھے۔ اسی کے ساتھ انہیں عمرانی اور معاشرتی مسائل سے بھی گہری دلچسپی تھی، لیکن اس کو انہوں نے عملاً نہیں برتا، چنانچہ اپنے ایک دوست کو لکھتے ہیں:
یہ عقدہ ہائے سیاست تجھے مبارک ہوں
بفیض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش
ویسے اپنے احباب کے اصرار پر پنجاب کی لیجسلیٹیو کونسل کی رکنیت کے لیے الیکشن لڑا اور منتخب ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت بھی قبول فرمائی۔ اس زمانے میں مسلمانانِ ہند انتہائی نازک دور سے گذر رہے تھے۔ اقبال نے اس نازک دور میں ہر ممکن طریقے سے مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ اقبال کو قدرت نے وسعتِ دل و دماغ سے سرفراز کیا تھا۔ ان کی کتابیں ارمغانِ حجاز، بانگِ درا، بالِ جبریل، ضربِ کلیم آج بھی مشعلِ راہ ہیں۔
علامہ اقبال کا کہنا تھا کہ”اسرار خودی“ ابتدا میں صرف ہندوستان کے لیے لکھی تھی کیونکہ ہندوستان میں فارسی سمجھنے والے کم تھے۔ پھر یہ مثنوی ہندوستان کی سرحدوں سے باہر گئی اور چھا گئی۔ بعد میں فارسی کی دلکشی نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا، علامہ اقبال بلند پایہ افکار و خیالات کے ساتھ شاعرانہ دل بھی رکھتے تھے۔ اسی لیے جرمنی میں قیام کے دوران ویگے ناسٹ نامی خاتون سے اُن کی اچھی دوستی رہی، جن کے نام اقبال نے خطوط بھی لکھے اور ویگے ناسٹ نے ان کے لیے ایک کتاب بھی لکھی، ’’ونگز آف جبریل“۔
عطیہ بیگم کے لیے بھی علامہ اقبال اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے، وہ ان کے لیے عطیہ فیضی تھیں، ان کے سفر نامے”زمانہٴ تحصیل“ میں عطیہ فیضی کا خوب ذکر ہے۔
عطیہ بیگم نے اقبال کی ممبئی آمد پر ایوانِ رفعت میں ان کے اعزاز میں ایک پارٹی دی تھی، اس موقع پر عطیہ فیضی کو آٹو گراف دیتے ہوئے علامہ اقبال نے یہ شعر تحریر کیا تھا:
عالمِ جوش جنوں میں ہے رواں کیا کیا کچھ
کہیے کیا حکم ہے دیوانہ بنوں یا نہ بنوں
1938ء میں علامہ اقبال کے انتقال کے بعد ممبئی میں اقبال کی یاد میں کئی جلسے منعقد کیے گئے، جن میں ان کی دوست سروجنی نائیڈو بھی پیش پیش رہیں۔ علامہ اقبال کی یاد میں آج بھی پروگرام مرتب ہوتے رہتے ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ اقبال کا لکھا یہ قومی ترانہ آج بھی لوگوں کی زباں پر ہے:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا
اور واقعی علامہ اقبال سارے جہاں کے تھے، ان کے افکار و اشعار آج بھی لوگوں کے ذہن میں محفوظ ہیں اور مشعلِ راہ ہیں۔