مصر اپنے ریاستی اثاثے خلیجی ممالک کو فروخت کرنے کا خواہاں
19 فروری 2023عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے تین ارب ڈالر کا امدادی پیکج ملنے کے باوجود مصر کو ڈالر کی کمی کا سامنا ہے اور حکومتی خزانے میں اضافے کے لیے اب مصری حکام امیر خلیجی ممالک کو ریاستی اثاثے فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام تمام فریقین کے لیے سود مند ثابت ہو گا تاہم پچھلے معاہدوں کے برعکس اب کی بار طے پانے والے ایگریمنٹ اقتصادی اصلاحات سے مشروط ہوں گی۔
اثاثوں کی فروخت تمام فریقین کے لیے فائدہ مند کیسے ہو گی؟
اس سال کی اوائل میں آئی ایم ایف نے خبردار کیا تھا کہ مصر کو اگلے چار برس کے عرصے میں17 بلین ڈالر کے مالیاتی خسارے کا سامنا رہے گا۔ مصری حکومت کو امید ہے کے خلیجی ممالک کو اثاثوں کی فروخت کے ذریعے آنے والی رقوم اس مسئلے سے نمٹنے میں مدد گار ثابت ہوں گی۔ دوسری جانب خلیجی ریاستیں بشمول کویت، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ان معاہدوں کے ذریعے مصر میں اثاثے، زمینیں اور ریاستی اداروں کے شیئر زیادہ آسانی سے خرید سکیں گی۔
اس تجزیے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اقتصادی امور پر تحقیق کرنے والے برطانوی ادارے کیپٹل اکنامکس سے وابستہ جیمس سوآنسٹن ماضی کی مثال دیتے ہیں، جب آئی ایم ایف فنڈز کی فراہمی سے قبل خلیجی ممالک نے گزشتہ برس مصر میں سرمایہ کاری کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سرمایہ کاری مصر کے معاشی امور سے متعلق کچھ خدشات کو فوری طور پر دور کرنے میں مدد گار ثابت ہوئی تھی اور اس کے ذریعے خلیجی ریاستیں بھی خطے میں اپنا اثر و رسوخ بر قرار رکھ سکی تھیں۔
'غیر مشروط معاونت کی فراہمی کا سلسلہ ختم'
مصری کرنسی کی قدر میں خاطر خواہ کمی اور صدر عبدالفتاح السیسی کی جانب سے پیش کردہ مراعات کے باعث مصری اثاثوں میں سرمایہ کاری خلیجی ممالک کے لیے ایک پر کشش پیشکش ہے۔ لیکن یہ خلیجی ممالک، جن کا تعاون سابقہ مصری صدر محمد مرسی کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد سے سیسی کے لیےاہم رہا ہے، اس سرمایہ کاری کے بدلے میں اب اقتصادی اصلاحات اور معاشی امور میں زیادہ شفافیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایک سال سے کم عرصے میں مصری پاؤنڈ اپنی نصف قدر کھو چکا ہے، جس کی وجہ سے جنوری میں مصر میں مہنگائی کی شرح 26.5 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ فی الوقت مصر کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 34.2 بلین ڈالر ہیں، جن میں سے تقریباﹰ 28 بلین ڈالر خلیجی ممالک کی جانب سے فراہم کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک صدی کے عرصے میں مصر کا بیرونی قرضہ تین گنا سے زائد اضافے کے ساتھ 155عرب ڈالر کو پہنچ گیا ہے۔
ملک کی معاشی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے اس ہفتے دبئی میں منعقد ہونے والی ورلڈ گورنمنٹ سمٹ کے موقعے پر صدر سیسی کا کہنا تھا، "مصر جیسے ملک کو ہر سال کھربوں ڈالر کا بجٹ درکار ہے۔ کیا ہمارے پاس اتنی رقم ہے؟ نہیں۔ کیا ہمارے پاس اس سے آدھی رقم بھی موجود ہے؟ نہیں۔ کیا ہمارے پاس اس کی ایک چوتھائی رقم بھی موجود ہے؟ نہیں۔"
اس بیان کے ساتھ ہی مصری صدر نے اس بات پر زور دیا تھا کہ مصر کے لیے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور کویت جیسے دوست ممالک کی مدد اور معاونت بہت اہم ہے۔ لیکن سعودی وزیر خزانہ محمد الجدان نے خبر دار کیا ہے کہ مصر کے لئے غیر مشروط مدد کی فراہمی کا سلسلہ اب ختم ہو چکا ہے۔ جنوری میں دیے گئے ایک بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب مصر کو بغیر شرائط کے برہ راست گرانٹس اور ڈپازٹس فراہم کرنے کی پالیسی کو تبدیل کر رہا ہے اور اب اس معاونت کے بدلے میں وہ اقتصادی اصلاحات کا مطالبہ کرے گا۔
خلیجی ممالک کی مصر میں سرمایہ کاری
آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں مصر نے اہم ریاستی اثاثوں کی نجکاری کا وعدہ کیا ہے تا کہ معیشت میں نجی شعبے کی شراک داری کو 2025ء تک 30 فیصد سے بڑھا کر 65 فیصد کیا جا سکے۔ خلیجی ممالک کی کمپنیوں نے اس موقعے کا بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔ مصری خبر رساں ادارے انٹرپرائز کے مطابق مصر میں 2021ء کی نسب 2022ء میں دگنے یعنی 66 انضمام اور سرکاری اداروں کو نجی تحویل میں لینے کے سودے ہوئے مکمل ہوئے۔ ان میں سے 40 معاہدوں میں اماراتی اور سعودی کمپنیاں فریقین تھیں۔
خلیجی ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے مصری حکومت ان کے لیے اس کا حصول مزید سہل بنا رہی ہے، جس کی ایک مثال وزیر اعظم مصطفٰی مدبولی کی جانب سے 32 پبلک کمنیوں کے شیئرز کی فروخت کا اعلان ہے۔ اس حوالے سے تھنک ٹینک کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر سے وابستہ يزيد صايغ کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے باوجود مصر میں فوج کے وسیع اثاثہ جات، جن کا اس کی معیشت میں ایک اہم اور خفیہ کردار رہا ہے، کی فروخت شاذ و نادر ہی کی گئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ کمپنیاں جو فوج کی ملکیت ہیں ان میں معاشی ٹرانسپیرانسی اس حد تک کم ہے کہ انہیں فروخت نہیں کیا جا سکتا اور اسی لیے وزیر اعظم مصطفی مدبولی نے جن کمپنیوں کے شیئرز کی فروخت کا اعلان کیا ہے ان میں سے صرف دو فوج کی ملکیت ہیں۔
م م⁄ ش ر (اے ایف پی)