1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرق وسطیٰ امن مذاکرات: دونوں طرف خوش اُمیدی کم

کریمر طانیہ/ کے ایم30 جولائی 2013

اسرائیل اور فلسطین کے سینیئر اہلکار تین سال سے جمود کے شکار امن مذکرات کی بحالی کے سلسلے میں ملاقات کر رہے ہیں۔ مذاکرات کاروں کی بات چیت سے اسرائیل اور فلسطین دونوں طرف کوئی خاص توقعات وابستہ نہیں کی جا رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/19HC7
تصویر: AFP/Getty Images

ایک اسرائیلی صحافی ’اوری ڈرومی‘ نے اپنے ایک کالم میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی طرف سے امن مذاکرات کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی وضاحت شاید ایک احساس کے ذریعے کی جا سکتی ہے اور وہ ہے’ دیِد قبلاً‘ کا احساس۔

ماضی میں متعدد بار اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو امن مذاکرات کا تجربہ ہو چکا ہے۔ ہر بار ایک امید بندھتی رہی، شاید اس دیرینہ تنازعے کا کوئی حل نکل ہی آئے، تاہم ہر بار مایوسی کا سامنا ہی ہوا اور گزشتہ چند سالوں سے یہ امید ایک اضطراب کی شکل اختیار کر گئی ہے۔

" کچھ نہ ہونے سے تو یہ بہتر ہے" یہ کہنا ہے ایک اسرائیلی طالبعلم گاد ماکورس کا۔ وہ کہتا ہے،" مزید خراب کیا ہو سکتا ہے۔ تاہم مجھے بینجمن نیتن یاہو سے کسی قسم کی توقعات نہیں ہیں، آیا فلسطینی واقعاٍ امن چاہتے ہیں، اس بارے میں بھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا" ۔

Nahost-Friedensgespräche, Netanjahu, Kerry, Livni
عالمی برادری امن مذاکرات کی بحالی کی کوششوں میںتصویر: Getty Images

اسرائیلی روزنامہ ھآرتز میں جولائی کے اواخر میں چھپنے والے ایک حالیہ سروے کے نتائج کے مطابق اس وقت 55 فیصد اسرائیلی باشندے فلسطینیوں کے ساتھ معاہدے کے حق میں ہیں۔ تاہم 70 فیصد کو اس امر کا بالکل یقین نہیں ہے کہ مشرق وسطیٰ کے دیرینہ تنازعے کے حل پر کبھی اتفاق ہو سکے گا۔ اُدھر فلسطینیوں میں بھی کوئی خاص توقعات نہیں پائی جاتیں۔ فلسطین کے سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ کے ایک سروے کے مطابق 69 فیصد فلسطینوں کو یقین ہے کہ آئندہ پانچ سالوں کے اندر مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے دو ریاستی حل پرعمل درآمد نہیں ہو گا۔ مشرقی یروشلم کا ایک کتب فروش عماد مونا کہتا ہے،" گرچہ ان دنوں کافی زیادہ افراد امن مذاکرات کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں تاہم یہ لوگ کسی خوش امیدی میں مبتلا نہیں ہیں۔ میں فطرتاً خوش امید یا رجائیت پسند ہوں۔ تاہم 1994ء یعنی گزشتہ 20 سالوں سے ہم اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ مجھے اس بار بھی خاطر خواہ نتائج کی امید نہیں ہے" ۔

Houses are seen in the West Bank Jewish settlement of Ofra, north of Ramallah July 18, 2013. Negotiations between Israel and the Palestinians, which have ebbed and flowed for two decades, last broke down in late 2010, after a partial settlement halt meant to foster talks ended and Israeli Prime Minister Benjamin Netanyahu refused to extend it. Palestinians familiar with Palestinian President Mahmoud Abbas' thinking speculated he might now forgo the demand for a settlement moratorium given a recent slowdown in housing starts issued by Israel's government, though it may still be painful to roll back his previous demand. If Abbas yields on the issue, it may be in exchange for a goodwill gesture from Israel such as amnesty for around 100 veteran PLO fighters long held in its jails. REUTERS/Baz Ratner (WEST BANK - Tags: POLITICS CIVIL UNREST BUSINESS CONSTRUCTION)
غرب اردن کے علاقے میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا متنازعہ پروجیکٹتصویر: Reuters

فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا متنازعہ معاملہ

براہ راست مذاکرات کی بحالی کی راہ کی ایک بڑی رکاوٹ گزشتہ اتوار کو اُس وقت دور ہوتی دکھائی دی جب اسرائیلی کابینہ نے 104 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک دوستانہ علامت تھی فلسطینیوں کے لیے جس کے بارے میں گرما گرم بحث ہوئی۔ اسرائیلی کابینہ میں کئی گھنٹوں تک جاری بحث کے بعد وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اپنی کابینہ کے 13 اراکین کی حمایت حاصل کر سکے۔ سات نے اس کی مخالفت کی جبکہ دو نے اپنے ووٹ محفوظ رکھے۔ 1993 ء کے اوسلو معاہدے سے قبل اسرائیل نے 104 فلسطینیوں کو مبینہ طور پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام کے تحت گرفتار کر لیا تھا۔ ان میں سے چند کو اسرائیلیوں کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔

مذاکرات کے لیے روڈ میپ کی تیاریاں

واشنگٹن میں آج ہونے والی بات چیت سے قبل گزشتہ روز یعنی پیر کی شام امریکی دارالحکومت میں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے اسرائیلی اور فلسطینی نمائندوں کے مابین براہ راست مذاکرات بحال ہو گئے تھے ۔ طویل عرصے سے تعطل کے شکار ان دو طرفہ امن مذاکرات کی باقاعدہ بحالی سے قبل فلسطینی اعلیٰ مذاکرات کار صائب عریقات اور ان کی اسرائیلی ہم منصب زیپی لیونی نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ہمراہ ایک مشترکہ عشائیے میں شرکت کی۔ جان کیری نے فریقین پر زور دیا کہ انہیں امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔

Palestina Demonstrationen 2013
اسرائیلی فوج اور فلسطینیوں کے مابین آئے دن جھڑپیں ہوتی رہتی ہیںتصویر: SAIF DAHLAH/AFP/Getty Images

یروشلم میں عبرانی یونیورسٹی کے سیاسیات کے شعبے کے ایک پروفیسر ابراہم ڈسکن کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ امن مذاکرات میں کسی معاہدے کے طے پانے کے بارے میں کوئی خاص توقع نہیں کر رہے۔ تاہم آج کی اس بات چیت میں کم از کم فریقین امن مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور ایسا ہوا تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔