مشرق وسطیٰ امن مذاکرات: دونوں طرف خوش اُمیدی کم
30 جولائی 2013ایک اسرائیلی صحافی ’اوری ڈرومی‘ نے اپنے ایک کالم میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی طرف سے امن مذاکرات کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی وضاحت شاید ایک احساس کے ذریعے کی جا سکتی ہے اور وہ ہے’ دیِد قبلاً‘ کا احساس۔
ماضی میں متعدد بار اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو امن مذاکرات کا تجربہ ہو چکا ہے۔ ہر بار ایک امید بندھتی رہی، شاید اس دیرینہ تنازعے کا کوئی حل نکل ہی آئے، تاہم ہر بار مایوسی کا سامنا ہی ہوا اور گزشتہ چند سالوں سے یہ امید ایک اضطراب کی شکل اختیار کر گئی ہے۔
" کچھ نہ ہونے سے تو یہ بہتر ہے" یہ کہنا ہے ایک اسرائیلی طالبعلم گاد ماکورس کا۔ وہ کہتا ہے،" مزید خراب کیا ہو سکتا ہے۔ تاہم مجھے بینجمن نیتن یاہو سے کسی قسم کی توقعات نہیں ہیں، آیا فلسطینی واقعاٍ امن چاہتے ہیں، اس بارے میں بھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا" ۔
اسرائیلی روزنامہ ھآرتز میں جولائی کے اواخر میں چھپنے والے ایک حالیہ سروے کے نتائج کے مطابق اس وقت 55 فیصد اسرائیلی باشندے فلسطینیوں کے ساتھ معاہدے کے حق میں ہیں۔ تاہم 70 فیصد کو اس امر کا بالکل یقین نہیں ہے کہ مشرق وسطیٰ کے دیرینہ تنازعے کے حل پر کبھی اتفاق ہو سکے گا۔ اُدھر فلسطینیوں میں بھی کوئی خاص توقعات نہیں پائی جاتیں۔ فلسطین کے سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ کے ایک سروے کے مطابق 69 فیصد فلسطینوں کو یقین ہے کہ آئندہ پانچ سالوں کے اندر مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے دو ریاستی حل پرعمل درآمد نہیں ہو گا۔ مشرقی یروشلم کا ایک کتب فروش عماد مونا کہتا ہے،" گرچہ ان دنوں کافی زیادہ افراد امن مذاکرات کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں تاہم یہ لوگ کسی خوش امیدی میں مبتلا نہیں ہیں۔ میں فطرتاً خوش امید یا رجائیت پسند ہوں۔ تاہم 1994ء یعنی گزشتہ 20 سالوں سے ہم اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ مجھے اس بار بھی خاطر خواہ نتائج کی امید نہیں ہے" ۔
فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا متنازعہ معاملہ
براہ راست مذاکرات کی بحالی کی راہ کی ایک بڑی رکاوٹ گزشتہ اتوار کو اُس وقت دور ہوتی دکھائی دی جب اسرائیلی کابینہ نے 104 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک دوستانہ علامت تھی فلسطینیوں کے لیے جس کے بارے میں گرما گرم بحث ہوئی۔ اسرائیلی کابینہ میں کئی گھنٹوں تک جاری بحث کے بعد وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اپنی کابینہ کے 13 اراکین کی حمایت حاصل کر سکے۔ سات نے اس کی مخالفت کی جبکہ دو نے اپنے ووٹ محفوظ رکھے۔ 1993 ء کے اوسلو معاہدے سے قبل اسرائیل نے 104 فلسطینیوں کو مبینہ طور پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام کے تحت گرفتار کر لیا تھا۔ ان میں سے چند کو اسرائیلیوں کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔
مذاکرات کے لیے روڈ میپ کی تیاریاں
واشنگٹن میں آج ہونے والی بات چیت سے قبل گزشتہ روز یعنی پیر کی شام امریکی دارالحکومت میں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے اسرائیلی اور فلسطینی نمائندوں کے مابین براہ راست مذاکرات بحال ہو گئے تھے ۔ طویل عرصے سے تعطل کے شکار ان دو طرفہ امن مذاکرات کی باقاعدہ بحالی سے قبل فلسطینی اعلیٰ مذاکرات کار صائب عریقات اور ان کی اسرائیلی ہم منصب زیپی لیونی نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ہمراہ ایک مشترکہ عشائیے میں شرکت کی۔ جان کیری نے فریقین پر زور دیا کہ انہیں امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔
یروشلم میں عبرانی یونیورسٹی کے سیاسیات کے شعبے کے ایک پروفیسر ابراہم ڈسکن کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ امن مذاکرات میں کسی معاہدے کے طے پانے کے بارے میں کوئی خاص توقع نہیں کر رہے۔ تاہم آج کی اس بات چیت میں کم از کم فریقین امن مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور ایسا ہوا تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔