مختلف ممالک میں پھیلتی فور بی تحریک کیا ہے؟
15 دسمبر 2024کرسٹین ایوانز نے 30 سال کی عمر میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی توانائیاں کسی خاص شخص کو ڈھونڈنے میں صرف کرنے کے بجائے اپنے کیریئر پر لگائیں گی۔
تاہم کچھ سال قبل جب کرسٹین کو ٹک ٹاک کے ذریعے فور بی تحریک کے بارے میں پتہ چلا تو انہیں احساس ہوا کہ اس فیصلے میں وہ تنہا نہیں تھیں۔
جنوبی کوریا سے امریکہ تک
سال 2010 کے وسط میں جنوبی کوریا میں شروع ہونے والی فور بی تحریک اب امریکی سوشل میڈیا پر بھی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔
رواں سال کے آغاز میں، امریکی اداکارہ جولیا فاکس نے رو بنام ویڈ کیس کی منسوخی کے ردعمل میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ کبھی کسی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم نہیں کریں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ اس فیصلے کے ذریعے ان کے جسمانی حقوق چھینے جا رہے ہیں، یہ ان کا طریقہ ہے اپنے حقوق واپس لینے کا۔
تاہم امریکی انتخابات کے بعد فور بی تحریک کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔
جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والی فیمنسٹ مصنفہ منگ یاونگ لی، جو فور بی تحریک کی رکن ہیں، کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ، ’’میں کب سے اس لمحے کا انتظار کر رہی تھی۔ اس تحریک کو آپ لوگوں تک پہنچنے میں آٹھ سال لگے۔‘‘
منگ یاونگ لی کا ماننا ہے کہ امریکہ ہو یا جنوبی کوریا، خواتین کے حقوق کی جنگ دونوں ممالک میں یکساں ہے۔
خواتین بچے کیوں پیدا کرنا نہیں چاہتیں؟
32 سالہ مصنفہ منگ یاونگ لی بچوں کی خواہش نہیں رکھتیں۔ وہ ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئی تھیں جب بیٹیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیا جاتا تھا۔
اس صورتحال پر قابو پانے اور ملکی شرح پیدائش میں اضافے کے لیے جنوبی کوریا میں 1987 میں ایک قانون نافذ کیا گیا جس میں جنس کے تعین کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔
اس کے باوجود آج بھی جنوبی کوریا میں بچوں کی پیدائش کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے۔ صدر یون سوک یول کا ماننا ہے کہ اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ فیمینزم ہے۔
منگ یاونگ لی کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا میں خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہیں ملتی ہیں۔ ان پر گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ بھی نسبتاﹰ زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین بچے پیدا کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ، ’’اگر ہم نے لڑکیوں کو جنم دیا تو نہ وہ محفوظ رہ سکیں گی اور نہ ہی خوش۔‘‘
مزاحمت جاری رہے گی
امریکی شہر سئیٹل میں مقیم کرسٹین ایوانز بھی بچے پیدا کرنا نہیں چاہتیں۔
انہیں لگتا ہے کہ ان کی زندگی میں موجود بہت سے مرد، خاص طور پر ان کے والد، خواتین کے حقوق کا احترام نہیں کرتے۔ کرسٹین کے والد نے اپنی بیوی یعنی کرسٹین کی والدہ کو بھی دوران حمل طبی پیچیدگیوں کے باعث خطرات کا سامنا کرتے دیکھا تھا۔ اس کے باوجود بھی انہوں نے حالیہ انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا۔
کرسٹین کے خاندان میں خواتین کو حمل کے دوران زیادہ خطرات یا پیچیدگیوں کا سامنا رہا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اسقاط حمل کی محفوظ سہولیات نہ ملنے کا خیال بھی انہیں شدید خوف میں مبتلا کردیتا ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ، ’’میرے والد کہتے ہیں کہ وہ خواتین کے حقوق کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم جب بات ووٹ دینے کی ہو تو وہ اس کو دیگر مسائل کے مقابلے میں کم ترجیح دیتے ہیں۔‘‘
کرسٹین کا کہنا ہے کہ جب خواتین کے حقوق کے خلاف اقدامات کیے جاتے ہیں، تو ان کے حقوق کے دفاع کے لیے ایسی مزاحمتی تحریکیں ابھرتی ہیں۔
تحریک کے مقاصد کو مزید واضح کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کے ذریعے خواتین مردوں کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ جب تک وہ ان کی بات نہیں سنیں گے اور ان کے حقوق کا احترام نہیں کریں گے، وہ ان سے دور رہیں گی۔
مختلف ثقافتوں کی خواتین کی مشترکہ جدوجہد
سیو ہی لی اس بات پر مطمئن ہیں کہ اب امریکی خواتین بھی اس فور بی تحریک کا حصہ بن رہی ہیں۔
انہیں اس بات پر بالکل بھی حیرت نہیں ہے کہ امریکہ میں اس تحریک میں شامل خواتین کو سماجی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ خود اپنے ملک میں ایسے تجربات سے گزر چکی ہیں، جہاں بہت سی خواتین فیمینسٹ ہونے کا دعویٰ کرنے سے گریز کرتی ہیں، کیونکہ وہاں فیمینزم کو ناپسند کیا جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’’آخر کار میں ایک فیمنسٹ ہوں جس سے مرد نفرت کرتے ہیں۔‘‘
ح ف / ج ا (ڈی ڈبلیو)