’مافیا اِن جرمنی‘، سرگرم اطالوی گروہ
19 مئی 2014ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جرمن حکام اطالوی جرائم پیشہ گروہوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کا صحیح انداز نہیں لگا پا رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے فُنک نامی ایک گروپ کے ڈیوڈ شرافن (David Schraven) کہتے ہیں کہ جرمنی میں ابھی تک اسے ایک خطرے اور مسئلے کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پیسے کے لین دین، اثاثوں کی ضبطی اور جاسوسی کے حوالے سے جرمنی کے موجودہ قوانین کافی نرم ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ساتھ ہی یہاں اٹلی کی طرح کے مافیا مخالف قوانین کا بھی فقدان ہے اور یہ گروہ اسی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے باتیں کرتے ہوئے شرافن نے بتایا کہ جرمن قوانین کی کمزوریوں ہی کے سبب آج کل یہ ملک مافیا گروپس کے لیے جنت بنا ہوا ہے اور وہ یہاں جو چاہیں، کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں شرافن نے اٹلی اور جرمنی کے دیگر صحافیوں کے ساتھ مل کر ’’مافیا اِن جرمنی‘‘ کے نام میں ایک تحقیقاتی رپورٹ تیار کی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق جرمنی میں جرائم پیشہ سرگرمیاں ماتیو میسینا دینارو نامی ایک مفرور اور اٹلی کو انتہائی مطلوب ملزم کی نگرانی میں جاری ہیں۔ جرمنی میں خاص طور پر تعمیراتی شعبہ ان جرائم پیشہ اطالوی گروہوں کا ہدف بنا ہوا ہے۔ ان سرگرمیوں پر خرچ ہونے والی تمام رقم اطالوی جزیرے سسلی سے جرمنی منتقل کی گئی ہے۔ سسلی مافیا گروپوں کے حوالے سے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔
اس رپورٹ کی تیاری کے دوران صحافیوں نے مافیا سے تعلق رکھنے والے ایک قاتل سے بھی خفیہ طور پر بات چیت کی، جس نے بتایا کہ ماتیو میسینا کے نئے بزنس ماڈل ’پاکس مافیوزا‘ پر عمل درآمد شروع ہونے کے بعد سے مافیا گروپ اب کسی کو قتل نہیں کرتے۔ پولیس کی خفیہ فائلوں تک رسائی کے بعد ڈیوڈ شرافن نے ’مافیا اِن جرمنی‘ نامی یہ منصوبہ شروع کیا تھا۔ ان دستاویزات میں جرمنی میں آباد میں تقریباً بارہ سو مافیوزا یا جرائم پیشہ افراد کے نام درج تھے۔ اس منصوبے کی مطابق اس تحقیقاتی رپورٹ کی تمام تر تفصیلات اور اس تناظر میں جمع کیے گئے اعداد و شمار سے عوام کو اگلے تین ماہ کے دوران آگاہ کر دیا جائے گا۔
جرمن عوام کو ملک میں اطالوی مافیا کی موجودگی سے 2007ء میں خبردار کیا گیا تھا۔ تب جرمن شہر ڈیوزبرگ میں پیش آنے والے ایک واقعے میں جرائم پیشہ اطالوی گروہ درانگھیتا (Ndrangheta) کے چھ اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ تاہم اس رپورٹ کو تحریر کرنے والوں کا خیال ہے کہ عوام کی اس بارے میں معلومات بہت سطحی ہیں۔