لیاری ایک بار پھر جل رہا ہے
14 اپریل 2012پچھلے ایک مہینے میں یہ تیسری مرتبہ ہے کہ متحارب گروہ اس علاقے میں متصادم ہورہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آگئے ہیں۔
لیاری جو پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اسی جماعت کی حکومت کے دوران مختلف حوالوں سے کئی بار سراپا احتجاج بن چکا ہے۔ یہ علاقہ بندرگاہ کے قریب ہے اور صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں سے بھی دور نہیں۔
لیاری اور کراچی کے دیگر علاقوں میں ہونے والے مختلف احتجاجوں میں پچھلے دنوں کراچی کی کاروباری سرگرمیاں مسلسل معطل رہی ہیں۔ تاجر پیشہ افراد کا کہنا ہے کہ اگر یوں ہی معاملات رہے تو نہ صرف کراچی بلکہ ملک بھر کا بہت نقصان ہوگا۔ کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ کہلاتا ہے۔ کراچی کے ایوانِ صنعت و تجارت کے صدر میاں ابرارکا کہنا ہے کہ ایک دن اگر کام نہ ہو تو 14 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہڑتالوں اور ہنگاموں کے علاوہ بھی کراچی کا صنعتی نقصان ہو رہا ہے۔ وہ بجلی اور گیس کی عدم دستیابی کو بھی ان نقصانات کی ایک وجہ بتاتے ہیں۔
امن و امان کی بگڑ تی ہوئی صورتحال پر کراچی کے تجارتی حلقوں میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ آل کراچی مارکیٹ الائنس کے عتیق میر کہتے ہیں کہ حالات کی درستگی کے لیے ضروری ہے کہ کراچی کو فوج کے حوالے کر دیا جائے۔ مگر وہ فوراﹰ ہی اس بات کو واضع کردیتے ہیں کہ ان کی مراد کسی مارشل لا سے نہیں بلکہ وہ صرف انتظامی ذمے داریاں فوج کو سونپنے کی بات کر رہے ہیں۔ صنعتکار میاں زاہد بھی کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں سیاسی مفادات کے مقابلے میں معیشت کی اتنی فکر نہیں کرتی۔ ان کا خیال ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر چاہیں تو حالات کو درست کر سکتے ہیں لیکن حکومت ان کو اپنے مفادات کی وجہ سے کچھ کرنے نہیں دیتی۔
عموماَ ایسی ہی باتیں کراچی کے عوام بھی کرتے ہیں۔ مقصود اختر دیہاڑی پر مزدوری کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے گھر کی معیشت تو ایک دن کی ہڑتال میں ہی بالکل تباہ ہوجاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ معاملات جتنے بھی مجرمانہ نظر آئیں ان کی آڑ میں سیاست ہورہی ہوتی ہے۔ کسی ہنگامے میں کوئی شخص مارا جاتا ہے اور پھر اس کی موت کو بنیاد بنا کر کوئی سیاسی جماعت ہڑتال کر دیتی ہے۔ شہر پھر بند ہوجاتا ہے، مزید لاشیں گرتی ہیں، اور پھر کئی دن تک ان کے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔
کراچی کے باشندے اسی بات سے اب بہت نالاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان ہڑتالوں سے ان کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا نقصان ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہی کہ آئے دن کے ہنگاموں کے نتیجے میں 20سے 30 ہزار گھر ایسے ہیں کہ ان کا پھر کئی دن تک چولہا نہیں جلتا۔ صرف شہر جلتا ہے۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: افسر اعوان