قندوز پر دوبارہ قبضے کے لیے افغان فورسز کی جوابی کارروائی
29 ستمبر 2015گزشتہ روز قندوز پر طالبان کا اچانک قبضہ صدر اشرف غنی کی حکومت کے لیے ایک ’بڑے دھچکے‘ سے کم نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان خدشات کو بھی مزید تقویت مل گئی ہے کہ افغان فورسز تنہا عسکریت پسندی کو کنٹرول کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ افغان وزارت خارجہ کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ حکومتی فورسز نے گزشتہ رات شہر کے ایئر پورٹ پر گزری، جہاں وہ دوبارہ منظم ہو رہے ہیں اور جلد ہی قندوز پر دوبارہ قبضہ کر لیا جائے گا۔ جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے، ’’قندوز میں تازہ دم دستے پہنچ چکے ہیں اور ایک فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔‘‘
افغان حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومتی فورسز نے شہر کی جیل اور صوبائی پولیس ہیڈکوارٹر پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔ طالبان نے پیر کی شب ان پر قبضہ کر لیا تھا جبکہ جیل پر حملے کے دوران وہاں پر موجود تمام طالبان قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ امریکی فضائیہ کے طیاروں نے شہر کے مضافات میں طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ قندوز کے دفاع کے لیے یہ فضائی حملے مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے کے قریب کئے گئے۔ نیٹو اتحاد کے ترجمان کرنل برائن ٹریبس کا کہنا تھا، ’’امریکی فضائیہ نے اتحادی فورسز اور شہر کے مضافات میں مصروف عمل افغان فورسز کو درپیش خطرے کے خاتمے کے لیے بمباری کی ہے۔‘‘ ان کی طرف سے یہ نہیں بتایا گیا کہ وہاں موجود اتحادی یا غیرملکی فوجیوں کی تعداد کتنی تھی اور ممکنہ ہلاکتوں کے بارے میں بھی کوئی اعداد و شمار فراہم نہیں کیے گئے۔
وزارت صحت کے ترجمان وحیداللہ نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ صوبے کے ہسپتالوں میں سولہ لاشیں لائی گئی ہیں جب کہ زخمیوں کی تعداد 172 ہے۔ دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ اس دوران ان کے تین عسکریت پسند مارے گئے ہیں جب کہ گیارہ زخمی ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق اس لڑائی میں اٹھارہ افغان پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ طالبان کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے، ’’ہم مقامی مجاہدین کی مدد کے لیے دیگر علاقوں سے جنگجو وہاں بھیج رہے ہیں۔‘‘ طالبان کے بیان کے مطابق قندوز میں صورتحال کشیدہ ہے اور شدید دو طرفہ لڑائی جاری ہے۔