1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قدیم بابل کے احیاء کی کوششیں

26 جون 2013

قدیم بابل شہر اپنی شان دار تاریخ اور ثقافت کے لیے شہرت تو رکھتا ہے، ساتھ ہی وہ اس حوالے سے بھی شہرت رکھتا ہے کہ اس کی تباہی میں کسی نے کسر نہیں چھوڑی۔ اب عالمی ادارے اور عراقی حکومت مل کر اس کے احیاء کی کوشش کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/18wcD
---
تصویر: picture-alliance/dpa

بابل کے قدیم ’’بوابة عشتار‘‘ یا عشتار دروازے پر کئی عراقی مزدور اور کاری گر ہتھوڑے اور اوزار لیے اس کی مرمت کے کام میں مصروف ہیں۔ وہ اس کنکریٹ کی سلیب کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ اس عظیم دروازے کو تباہ کر رہی ہے۔ یہ کنکریٹ کی سلیب اینٹوں سے بنی ان دو بلند دیواروں کے درمیان موجود ہے جو کہ ڈھائی ہزار برس پرانا عشتار دروازہ ہے۔ قدیم بابل کا یہ بابِ عظیم اب عراق کے بابل صوبے میں واقع ہے۔

’’دا فیوچر آف بیبیلون‘‘ نامی پراجیکٹ کے فیلڈ منیجر جیف ایلن کہتے ہیں کہ انیس سو اسی کی دہائی میں بوابة عشتار میں جدت لانے کی غرض سے کئی تبدیلیاں کی گئیں اور اس کی بنیاد میں کنکریٹ کی سلیب رکھی گئی۔ ان کا کہنا کہ ان سب عوامل کی وجہ سے یہ دروازہ تباہ ہو رہا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’کنکریٹ کو ہٹانے سے دروازے کی تہ میں زمین کو ہوا ملے گی اور وہاں کی نمی جذب ہو سکے گی۔ اس وقت ایسا نہیں ہو پا رہا اور پانی دروازے کو خراب کر رہا ہے۔‘‘

یہ پراجیکٹ ورلڈ مانیومینٹس فنڈ اور عراقی وزارت برائے قدیم ورثہ کی مشترکہ کاوش ہے۔ اس پراجیکٹ کا بنیادی مقصد بابل کی منیجمنٹ تھا تاہم بعد میں اس پراجیکٹ میں مختلف عمارات کے احیاء اور ان کی مرمت کا کام بھی شامل کر دیا گیا۔

’عالمی ورثہ‘

بابل کی تعمیر اور احیاء کا کام انیس سو ستر کی دہائی میں شروع کیا گیا تھا تاہم صدام حسین کے دور میں اس میں تیزی دیکھی گئی۔ ایلن کے بقول صدام حسین اس شہر کو عوام کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے، اور وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ یہاں میلہ منعقد کروایا جائے۔ ’’یہ کارروائی اس جگہ کے لیے تباہ کن تھی۔‘‘

ایلن کا کہنا ہے کہ بابل کی بربادی میں صرف صدام کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ انگریزوں نے بھی کثر نہیں چھوڑی تھی۔ برطانیہ نے یہاں ریلوے لائن ڈالنے کے علاوہ تیل کی تین پائپ لائنز بھی ڈال دی تھیں۔ یہاں کار پارکنگ بھی بنائی گئی اور دو ہزار تین میں عراق پر اتحادی افواج کے حملے اور قبضے کے بعد امریکی اور پولش فوجیوں کے لیے ایک کیمپ بھی تعمیر کیا گیا۔ ایلن کے مطابق اس جگہ کی بار بار ’’بے حرمتی‘‘ کی گئی ہے اور اب ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

عراقی حکومت بابل کو یونیسکو کے ورلڈ ہیریٹیج یا عالمی ورثے میں شامل کرانے کی ناکام کوشش کر چکی ہے مگر لگتا ہے کہ اس نے ہمت نہیں ہاری ہے۔

shs / aba (AFP)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید