فیفا ورلڈ کپ دو ہزار چونتیس کی میزبانی باعث فخر، سعوی عرب
12 دسمبر 2024فیڈریشن آف انٹرنیشنل فٹ بال ایسوسی ایشنز (فیفا) کی طرف سے بدھ گیارہ دسمبر کو کیے گئے اس اعلان کے بعد کہ 2034ء کے فٹ بال ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کا میزبان سعودی عرب ہوگا، ریاض کی فضا شاندار گولڈن ورلڈ کپ ٹرافی کی تصویر کشی کرنے والی آتش بازی اور ڈرونز سے چمک اٹھی اور آسمان پر اس ٹرافی کی شکل کی رنگ برنگی روشنی جگمگانے لگی۔
یہ خبر گرچہ شاید ہی کسی کے لیے کسی بڑی حیرانی کا باعث رہی ہو گی کیونکہ گزشتہ سال سعودی عرب نے واحد امیدوار کے طور پر فیفا کے حکام کو اپنی نامزدگی سے آگاہ کر دیا تھا۔ اب اس میزبانی کے باقاعدہ فیصلے کی صورت میں اعلان پر سعودی حکام نے جشن مناتے ہوئے اسے اپنے ملک کے لیے باعث فخر قرار دیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے تنقید
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کئی تنظیموں اور گروپوں نے فیفا کے اس فیصلے کی فوری طور پر مذمت کرتے ہوئے کہا، ''یہ بہت خطرے کا لمحہ ہے۔‘‘ انسانی حقوق کے گروپوں نے سعودی عرب میں تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والے کارکنوں کو لاحق خطرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سعودی عرب میں فٹ بال ورلڈ کپ محنت کشوں کے لیے خطرہ، ایمنسٹی
اس طرح کی بیرونی تنقید نے اس عرب ریاست کو سعودی سرزمین پر ہائی پروفائل ٹینس ٹورنامنٹس، فارمولا ون ریسنگ اور باکسنگ کے مقابلوں کے انعقاد کے ذریعے خود کو کھیلوں کے ایک پاور ہاؤس کے طور پر منوانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کرنے کی ترغیب دی۔
بدھ کے روز ریاض کی سڑکوں پر جشن کا جو سماں تھا، اس میں سعودی باشندے انسانی حقوق سے متعلق خدشات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ملک کو کھیلوں کے لیے نہایت موزوں ثابت کرنے اور اس فیصلے پر فخر کا اظہار کر رہے تھے۔
ریاض کی ایک فلک بوس عمارت کے پہلو میں عربی زبان میں ''دنیا کو خوش آمدید 2034ء‘‘ لکھا ہوا نظر آ رہا تھا، جبکہ شہر کی مصروف طہلیہ اسٹریٹ پر تلواروں والے اور سبز رنگ کے سعودی پرچم کے ساتھ اسٹریٹ لیمپ پوسٹرز بھی لٹکائے گئے تھے۔
سعودی عرب میں وژن 2030 کے عظیم منصوبوں کی تکمیل ممکن؟
سعودی باشندوں کا جوش و خروش
سعودی عرب کے ایک 44 سالہ سرکاری ملازم، عبدالرحمان الشہری نے اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا، ''میں ورلڈ کپ میں شرکت کا خواب دیکھتا تھا۔ لیکن انصرامی نوعیت کی رکاوٹیں آڑے آتی رہیں۔ اب سعودی عرب میں ورلڈ کپ کے انعقاد کے فیصلے سے یہ خواب پورا ہو گیا ہے۔‘‘
پینتیس سالہ خالد العزہ نے کہا کہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ اس طرح کا تصور بعید از قیاس لگتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا، ''میں زیادہ تر میچ اسٹیڈیم میں دیکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ٹورنامنٹ اب گھر کے قریب ہو گا۔‘‘ خالد العزہ کے بقول، ''سعودی عرب کے لیے اب کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔‘‘
وژن 2030 ء میں اسپورٹس کا مقام
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے اصلاحاتی ایجنڈا وژن 2030 ء میں کھیل ایک اہم جزو ہیں۔ محمد بن سلمان کے اس ایجنڈے کا اصل مقصد دنیا کے اس سب سے بڑے خام تیل برآمد کنندہ ملک کی معیشت کو متنوع بنانا ہے۔
قطر میں ایشیا کپ فٹ بال کے کوارٹر فائنل آج سے
اس سعودی رہنما کو اس امر کا ادراک ہے کہ انہیں سیاحوں اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے اپنے معاشرے کا امیج بہتر کرنا ہو گا، یعنی عام طور سے سعودی معاشرے کو ممنوعات کا معاشرہ سمجھا جاتا ہے۔ اس سخت گیر موقف کے حامل معاشرے کی نرم تصویر پیش کر کے ہی سعودی ولی عہد غیر ملکی سیاحوں اور سرمایہ کاروں کو معیشت کے فروغ کے لیے سعودی عرب کی طرف مائل کر سکیں گے۔ اسی مقصد کے تحت وہ غیر ملکیوں کا زیادہ سے زیادہ خیرمقدم کرنا چاہتے ہیں۔
پرنس محمد بن سلمان نے بدھ کو سرکاری پریس ایجنسی کو ایک بیان دیتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ سعودی بادشاہت ''دنیا بھر میں فٹ بال کے کھیل کو فروغ دینے اور محبت، امن اور روا داری کے پیغامات کو پھیلانے کے لیے بااثر انداز میں تعاون کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘‘
سعودی عرب کی فلمی صنعت: چکا چوند اور سنسر شپ کے بیچ
سعودی پریس ایجنسی کا مزید کہنا تھا، ''فیفا ورلڈ کپ 2034 ء کی میزبانی اس مملکت کی اصلاحاتی کوششوں میں مسلسل پیش رفت کو اجاگر کرنے کا ایک اہم موقع ہے۔‘‘
ریاست سعودی عرب سے منسلک الاخباریہ چینل پر نشر ہونے والے ایک پیغام میں وزیر کھیل شہزادہ عبدالعزیز بن ترکی الفیصل نے کہا کہ سعودی عرب ''دنیا کے لیے کھل رہا ہے‘‘ اور عالمی سطح پر فٹ بال کی ترقی میں مدد کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا، ''فیفا اور تمام ممبر ایسوسی ایشنز کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہم اس سفر کو بانٹنا، ترقی کے نئے مواقع پیدا کرنا اور نئے طریقوں سے نئے شائقین تک پہنچنا چاہتے ہیں۔‘‘
ورلڈ کپ کی تیاریوں کے چیلنجز
اس میں کوئی شک نہیں کہ 48 ممالک کی ٹیموں والے ٹورنامنٹ کی تیاری ایک بھاری پیکج ہے۔ سعودی عرب کو 2034 ء کے ورلڈ کپ کی میزبانی کے سلسلے میں جو دستاویز ملی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ اس مملکت کو 14’’ آل سیٹر اسٹیڈیمز کی ضرورت ہوگی، جن میں سے ہر کسی میں کم از کم 40 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہو۔
’اسرائیل سعودی عرب کے وژن 2030 کا لازمی جزو ہے‘
واضح رہے کہ سعودی عرب میں فی الحال صرف دو اسٹیڈیم ہیں، جدہ کا کنگ عبداللہ اسپورٹس سٹی اسٹیڈیم اور ریاض کا کنگ فہد انٹرنیشنل اسٹیڈیم۔
ایک سعودی شہری، 48 سالہ زیاد بن نہیت نے کہا کہ ان کی توقع کے مطابق سعودی عرب کے لیے 2034 ء کے ورلڈ فٹ بال ٹورنامنٹ کا انعقاد 2022 ء کے ورلڈ کپ کے میزبان پڑوسی ملک قطر سے بھی زیادہ مشکل عمل ہوگا لیکن سعودی رہنما اس چیلنج کا مقابلہ کر نے کے اہل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ''ہم صرف ورلڈ کپ کے بارے میں بات نہیں کر رہے۔ ہم ایکسپو 2030 ء کے انعقاد کے بارے میں بھی بات کر رہے ہیں۔ ہم کھیلوں کے دیگر عالمی مقابلوں کی میزبانی کے بارے میں بھی بات کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔‘‘
ک م/ م م (اے ایف پی)