’فوجی عدالتوں کی جانب سے دی گئی موت کی سزائیں معطل‘
16 اپریل 2015پاکستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافے کے نتیجے میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ واقعات کے پس منظر میں یہ فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں تاہم ان عدالتوں کی کارروائیوں کی شفافیت، ان پر فوجی طاقت اور اختیارات کے اثر و رسوخ کی حدود کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
رواں ماہ فوجی عدالتوں کی طرف سے چھ مجرموں کو سزائے موت جبکہ ایک کو عمر قید کی سزا سُنائی گئی تھی، جن کے بارے میں آج سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ان سزاؤں پر عملدرآمد نہیں کیا جائے گا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے جمعرات کو 18ویں اور 21 ویں آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ اس موقع پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر کی گئی ایک متفرق درخواست میں کہا گیا تھا کہ حال ہی میں فوجی عدالتوں کی طرف سے سات ملزمان کو دی جانے والی سزا پر عمل درآمد کو اس وقت تک روک دیا جائے جب تک ان عدالتوں کے خلاف دائرشدہ درخواستوں کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا، ’’فوجی عدالتوں کی طرف سے سنائی جانے والی تمام تر سزائیں معطل کی جاتی ہیں۔ وہ سزائیں جو سنا دی گئی ہیں اور وہ بھی جو آئندہ سنائی جائیں گی، ان دونوں پر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اطلاق ہوگا۔‘‘ سُپریم کورٹ کے فیصلے پر تاہم کسی فوجی ترجمان کی طرف سے کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔
سُپریم کورٹ کے اس فیصلے کے تحت فوجی عدالتوں کی طرف سے سزا پانے والے مجرموں کو اپیل کرنے کا وقع میسر آ گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی کورٹ کی طرف سے دیے گئے فیصلے کو مستند یا معتبر نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ اس ملک میں قائم مجرمانہ انصاف کا نظام نہایت فرسودہ ہے۔ یہاں اقرار جرم کروانے کے لیے ملزمان کو اذیت اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پولیس کی تفتیشی کارروائی نہایت ناقص ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نئی فوجی عدالتوں کے قیام سے ملکی فوج کی طاقت اور اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ سال پاکستان کے شورش زدہ شمال مغربی شہر پشاور کے آرمی اسکول پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد رواں سال جنوری میں پاکستان میں نو نئی ملٹری عدالتیں قائم کر دی گئیں تھیں۔ پشاور اسکول حملے میں 134 بچے اور 19 بالغ افراد ہالک کیے گئے تھے۔
گزشتہ دسمبر میں پشاور اسکول کے سانحے کے بعد نواز شریف حکومت پر عوام کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات کے ضمن میں غیر معمولی دباؤ پڑنا شروع ہوا جس کے نتیجے میں وزیر اعظم پاکستان نے پارلیمان سے نئی فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری حاصل کر لی اور سزائے موت پر لگی پابندی ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اُس کے بعد سے اب تک سویلین عدالتوں کی طرف سے سزا یافتہ 50 سے زائد افراد کو پھانسی دی جا چُکی ہے۔ دریں اثناء سپریم کورٹ نے 18 ویں اور 21 ویں آئینی ترامیم سے متعلق درخواستوں پر سماعت 22 اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔