فلسطینی کو زندہ جلانے والا پاگل نہیں، اسرائیلی عدالت
19 اپریل 2016سن 2014ء میں 31 سالہ اسرائیلی آبادکار یوسف ہائم نے ایک مشتعل گروہ کی قیادت کی تھی، جس نے ایک نوجوان فلسطینی لڑکے کو پہلے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور پھر اسے زندہ جلا دیا تھا۔ اس یہودی کو سکیورٹی فورسز نے رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا تھا، تاہم ہائم کے وکیل نے اپنے مؤکل کو سزا سنائے جانے سےکچھ دیر قبل عدالت میں دستاویزات جمع کرائی تھیں، جن میں کہا گیا تھا کہ اس کا مؤکل ذہنی مسائل کا شکار ہے اور اسے اس جرم میں سزا نہیں دی جا سکتی۔
تاہم منگل کے روز سامنے آنے والے عدالتی فیصلے کے بعد اب یوسف ہائم کو سزا سنائے جانے کی راہ ہم وار ہو گئی ہے۔
اسرائیلی وزارت انصاف کی جانب سے اس عدالتی فیصلے پر ردعمل میں کہا گیا ہے، ’’عدالت کو معلوم ہوا کہ جرم کے وقت ملزم ذہنی مسائل کا شکار نہیں تھا، اس کا ذہنی توازن درست تھا اور وہ اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے، اس لیے وہ اپنے اقدام کا ذمہ دار ہے۔ کسی ملزم کو جرم سے روکنے کے لیے جو ادراک درکار ہوتا ہے، ملزم اس ادراک کا حامل تھا۔‘‘
اس سال فروری میں اسی جرم میں معاونت پر ایک اسرائیلی عدالت نے دو نوجوان یہودی شہریوں کو عمر قید اور 21 برس قید کی سزا سنائی تھی۔ یہ بات واضح رہے کہ یہ واقع سن 2014ء کی غزہ جنگ سے قبل پیش آیا تھا۔ ان دونوں ملزمان کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ جرم کے وقت یہ دونوں نابالغ تھے۔
سن 2014ء میں پیش آنے والے اس واقعے میں مشتعل یہودیوں کے ایک گروہ نے مشرقی یروشلم میں ایک 16 سالہ فلسطینی نوجوان محمد ابوخدیر کو سڑک پر تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور پھر زندہ جلا ڈالا تھا۔
اس واقعے کو مغربی کنارے کے قریب واقع شہر عبرون سے تین اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا اور قتل کا ردعمل قرار دیا گیا تھا۔