’فلسطینی نوجوان کو زندہ جلانے کا اعتراف‘
7 جولائی 2014غزہ پر گزشتہ رات کے فضائی حملوں اور اُن میں ہونے والی ہلاکتوں کے ساتھ ہی تشدد کا نیا سلسلہ ایک نئے نقطہء عروج پر پہنچ گیا ہے۔ اس سلسلے کی ابتدا بارہ جون کو اُس وقت ہوئی تھی، جب اسرائیلیوں نے تین نوجوان اسرائیلی طلبہ کے اغوا اور قتل کے ذمے داروں تک پہنچنے کے لیے مغربی کنارے میں گرفتاریوں کی ایک لہر کا آغاز کیا تھا۔
غالباً انہی تین اسرائیلی نوجوانوں کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے مبینہ طور پر یہودی انتہا پسندوں نے اسرائیل کے زیرِ قبضہ مشرقی یروشلم سے ایک سولہ سالہ فلسطینی لڑکے محمد ابو خضیر کو بھی اغوا کے بعد قتل کر دیا تھا، جس پر مشرقی یروشلم کے ساتھ ساتھ اسرائیل بھر کے عرب قصبوں میں پُر تشدد احتجاج اور ہنگامےگزشتہ تقریباً ایک ہفتے سے مسلسل جاری ہیں۔ گزشتہ رات کے ہنگاموں کے بعد بھی وہاں ایک سو سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔
دریں اثناء اسرائیلی تفتیشی اہلکاروں نے بتایا ہے کہ اُنہوں نے ابو خضیر کے قتل کے الزام میں جن چھ مشتبہ اسرائیلیوں کو گرفتار کیا تھا، اُن میں سے تین نے اس فلسطینی لڑکے کو جلا کر قتل کرنے کا اعتراف کر لیا ہے اور پولیس کے سامنے باقاعدہ ساری منظر کشی کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کیسے اُنہوں نے ابو خضیر کو المناک موت سے دوچار کیا۔
دریں اثناء اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے مرنے والے فلسطینی لڑکے کے والد حسین ابو خضیر سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا:’’مَیں اس نو عمر لڑکے کے خاندان کے ساتھ اظہارِ افسوس کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ قانون پوری سختی کے ساتھ اُن لوگوں کو سزا دے گا، جنہوں نے یہ ہولناک جرم کیا ہے۔‘‘
غزہ پر گزشتہ رات کے اسرائیلی حملوں میں سات عسکریت پسند ہلاک ہوئے جبکہ دو لاپتہ عسکریت پسندوں کے بارے میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ وہ بھی غالباً ہلاک ہو چکے ہیں۔ مرنے والے عسکریت پسندوں میں سے پانچ کا تعلق حماس کے فوجی بازو عزالدین القاسم سے تھا، جسے اسرائیل تین اسرائیلی نوجوانوں کے قتل کا ذمے دار گردانتا ہے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق گزشتہ رات چَودہ اہداف کو نشانہ بنایا گیا جبکہ غزہ سے بھی چَودہ راکٹ اسرائیل کی جانب فائر کیے گئے، جن میں سے ایک راکٹ غزہ سے چالیس کلومیٹر دور جنوبی اسرائیلی شہر بیرشیوا میں ایک کھلی جگہ پر جا کر گرا تاہم یہ کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اُدھر اسرائیلی حکومت میں شامل سخت گیر عناصر کا اصرار ہے کہ اسرائیل کو غزہ کے خلاف کوئی بڑا فوجی آپریشن کرنا چاہیے تاہم وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایسے مطالبات پر سرِدست محتاط طرزِ عمل اختیار کر رکھا ہے۔
پیر سات جولائی کو وزیر خارجہ اویگڈور لیبرمان اور دائیں بازو کی قوم پرست جماعت یسرائیل بیتینو پارٹی کے سربراہ نے اعلان کیا کہ وہ نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ کے ساتھ اپنا بیس ماہ سے چلا آ رہا اتحاد ختم کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسا غزہ کے بحران پر لیکوڈ کے اب تک کے طرزِ عمل کی بناء پر کیا جا رہا ہے۔ لیبرمان کی جماعت البتہ حکومت میں بدستور رہے گی گو لیکوڈ سے علیحدگی کے بعد وہ پارلیمان میں زیادہ آزادی کے ساتھ اپنا موقف پیش کر سکے گی۔