فلسطینی صدر کی اسرائیلی نائب وزیر اعظم سے ملاقات اتوار کو
28 جون 2012راملہ سے خبر ایجنسی روئٹرز نے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ یہ بات آج جمعرات کو فلسطینیوں کے اعلیٰ ترین مذاکراتی نمائندے صائب عریقات نے ریڈیو وائس آف فلسطین کو انٹرویو دیتے ہوئے بتائی۔ یکم جولائی اتوار کے دن ہونے والی یہ ملاقات اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان سن 2010 میں دوطرفہ امن بات چیت معطل ہونے کے بعد سے اب تک کی اہم ترین ملاقات ہو گی۔
صائب عریقات نے کہا کہ اس ملاقات کی درخواست شاؤل موفاز کی طرف سے کی گئی ہے۔ اس بارے میں اسرائیلی نائب وزیر اعظم کے ترجمان نے کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی کہ صدر عباس اور شاؤل موفاز کے درمیان کوئی ملاقات طے ہو گئی ہے۔ تاہم ترجمان نے یہ ضرور کہا کہ اس طرح کی ملاقات کے لیے صدر عباس کے دفتر کے ساتھ رابطے کیے جا رہے ہیں۔
شاؤل موفاز نے اسی مہینے صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ فلسطینی صدر کے ساتھ اس مقصد کے تحت ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے۔ روئٹرز کے مطابق چند ماہرین کا خیال ہے کہ اس ملاقات سے کسی بہت بڑی اور اہم پیش رفت کی توقع نہیں کی جا سکتی کیونکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بات چیت کی معطلی کو ایک عرصہ ہو چکا ہے۔
اس ملاقات کے ممکنہ نتائج کے بارے میں صائب عریقات نے وائس آف فلسطین کو بتایا، ’ہم اس بارے میں لگائی جانے والی امیدوں کو نہ تو زیادہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ کم۔ یہ کوئی مذاکراتی اجلاس نہیں ہے۔ اسرائیل کی طرف سے مذاکرات کے ذمہ دار وزیر اعظم نیتن یاہو ہیں۔ اس کے علاوہ اطراف کی باقاعدہ مذاکراتی ٹیمیں بھی ہیں۔‘
صائب عریقات کے مطابق یہ ملاقات راملہ کے فلسطینی شہر میں ہو گی۔ شاؤل موفاز اسرائیل کی اعتدال پسند نظریات کی حامل جماعت قادیمہ پارٹی کے سربراہ ہیں۔ ان کی پارٹی نے وزیر اعظم نیتن یاہو کی مخلوط حکومت میں شمولیت کا جو فیصلہ کیا تھا، اس کے بعد اسرائیل کی تاریخ کی سب سے بڑی مخلوط حکومتوں میں سے ایک حکومت وجود میں آئی تھی۔ اس لیے کئی سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے پاس اتنی زیادہ پارلیمانی حمایت موجود ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ قیام امن کے لیے کھل کر بات چیت کر سکتے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات 2010ء کے آخر میں اس وقت معطل کر دیے گئے تھے جب مغربی اردن کے مقبوضہ علاقے میں یہودی آبادکاروں کی بستیوں کی تعمیر کا تنازعہ بہت شدت اختیار کر گیا تھا۔ فلسطینیوں کا اب تک مطالبہ ہے کہ اس بات چیت کی بحالی سے پہلے مغربی اردن کے علاقے میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور ان میں توسیع بند کی جائے۔
ij / sks / Reuters