فرانس ميں دہشت گردانہ حملے، ايک سال بيت گيا
13 نومبر 2016مشرق وسطیٰ ميں سرگرم دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹيٹ کے جنگجوؤں نے جمعہ تيرہ نومبر سن 2015 کی رات فرانسيسی دارالحکومت پيرس ميں متعدد مقامات پر حملے کرتے ہوئے کُل 130 افراد کو موت کے گھاٹ اتار ديا تھا۔ شدت پسندوں نے سب سے پہلے اشٹٹ ڈی فرانس نامی اسٹيڈيم کے باہر تين خود کش حملے کيے، جن کے نتيجے ميں ايک شہری ہلاک ہوا۔ عالمی شہرت يافتہ گلوکار اسٹنگ نے پيرس کے باتاں کلاں کنسرٹ ہال کا دوبارہ افتتاح کیا۔
مقامی وقت کے مطابق رات نو بج کر بيس منٹ پر جب يہ حملہ کيا گيا، اس وقت اسٹيڈيم ميں جرمنی اور فرانس کی قومی فٹ بال ٹيموں کے مابين ميچ جاری تھا اور تماشائيوں ميں فرانسيسی صدر فرانسوا اولانڈ بھی موجود تھے۔ امکان ظاہر کيا جاتا ہے کہ اگر حملہ آور اسٹيڈيم کی سکيورٹی کو عبور کرنے ميں کامياب ہو جاتے، تو اس حملے ميں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کہيں زيادہ ہو سکتی تھی۔
بعد ازاں اسٹيڈيم پر حملے کے کچھ ہی منٹوں بعد شہر کے مشرقی حصوں ميں مختلف مقامات پر فائرنگ شروع ہو گئی۔ مجموعی طور پر چھ چھوٹے ريستورانوں يا کيفيز کو نشانہ بنايا گيا۔ دس منٹ تک فائرنگ جاری رہی اور ان حملوں ميں انتاليس افراد مارے گئے۔ دريں اثناء تين حملہ آوروں نے پيرس کے باتاں کلاں ہال پر دھاوا بول ديا، جہاں اس وقت ’ايگلز آف ڈيتھ ميٹل‘ نامی بينڈ کی پرفارمنس جاری تھی۔
حملہ آوروں نے وہاں موجود افراد پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی اور تقريباً تين گھنٹے تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد اس ہال ميں نوے افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بيٹھے تھے۔ پيرس حملوں ميں مجموعی طور پر سترہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 130 افراد ہلاک ہوئے۔
فرانس ميں ہونے والے ان حملوں کو ايک برس ہو چکا ہے۔ اس موقع پر راک موسيقی کے عالمی شہرت يافتہ گلوکار اسٹنگ ہفتہ بارہ نومبر کی رات باتاں کلاں ہال ميں حملے کے بعد پہلا شو کیا۔ ، جسے علامتی اہميت حاصل ہے۔ اس ہولناک رات اور حملے ميں بچ جانے والے متدد افراد آج کے کنسرٹ ميں شرکت کی۔
اتوار کے روز صدر فرانسوا اولانڈ اور پيرس کی ميئر اين ہيڈالگو حملوں ميں ہلاک ہونے والوں کے ناموں کی تختيوں پر سے پردہ اٹھایا۔
خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کے ايک تجزيے کے مطابق ان حملوں کی ذمہ داری اسلامک اسٹيٹ نے قبل کر لی تھی۔ داعش کے مطابق فرانس کو اس ليے نشانہ بنايا گيا کيوں کہ فرانسيسی فوج عراق اور شام ميں دہشت گرد عناصر کے خلاف امريکی اور ديگر قوتوں کی اتحادی ہے اور وہ کارروائيوں ميں شريک ہے۔ فرانس اس ليے بھی دہشت گردوں کا ہدف بنتا رہتا ہے کيونکہ وہاں کڑا سيکولر نظام ہے اور اسکولوں وغيرہ اور عام جگہوں پر برقعے اور دیگر مذہبی علامات کی نمائش پر پابندی عائد ہے۔ پيرس ميں ہونے والے ان حملوں ميں شامل کئی مجرمان فرانس کی مسلمان کميونٹی کے ارکان تھے، جو انضمام کی ناکام کوششوں اور نسل پرستی جيسے عوامل کا شکار تھے اور ان حالات سے اکتا چکے تھے۔