1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فائر بندی کے بعد بھی عالمی برادری کی نگاہیں مشرق وسطیٰ پر

Kishwar Mustafa22 نومبر 2012

فائر بندی کے اس معاہدے میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے مصری صدر کو ایک فاتح کی حیثیت سے عالمی سطح پر کافی پذیرائی مل رہی ہے۔ تاہم اسرائیل اور فلسطین کے مابین توازن قائم رکھنا اب بھی آسان نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/16o8x
تصویر: AP

اسرائیل اور حماس کے درمیان آٹھ روزہ خونریز جھڑپوں کے بعد طے پانے جانے والے فائربندی معاہدے کے بعد ہتھیار خاموش ہیں۔ ایک طرف فلسطینی علاقوں میں فائر بندی پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے دوسری جانب عالمی برادری مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ کہیں تشدد کی وہ آگ جس کی لپیٹ میں آکر گزشتہ 8 روز میں 165 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں دوبارہ نہ بھڑک اُٹھے۔ ہلاک ہونے والوں میں 162 فلسطینی اور 5 اسرائیلی شامل تھے۔

فائر بندی کے معاہدے پر عمل درآمد شروع ہونے کے فوراٍ بعد سے غزہ سٹی میں زندگی کسی حد تک معمول پر آنا شروع ہو گئی۔ اس موقع پر سڑکوں پر نکل کرخوشی کا اظہار کرنے والے فلسطینیوں کی طرف سے کی جانے والی ہوائی فائرنگ کا دُہرا مطلب لیا جا سکتا ہے۔ شاید وہ خوشی اور اپنی فتح دونوں ہی کا اظہار کر رہے تھے۔ فائر بندی پر اتفاق کے اعلان کے ساتھ ہی اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے واشنگٹن انتظامیہ کے ساتھ بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کیا۔ جس کے بعد ایک بیان میں انہوں نے کہا،’صدر اوباما کے ساتھ بات چیت میں ہم دونوں کی رائے یہی تھی کہ حالات کو قابو میں لانے کے لیے فائر بندی کے معاہدے کو ایک موقع دیا جانا چاہیے۔ اس طرح اسرائیلی عوام کو اپنی زندگی معمول کی طرف لانے میں مدد ملے گی۔ تاہم یہ امر واضح ہے کہ ہمارے دشمنوں کی طرف سے دہشت گردانہ کارروائیوں کے جاری رہنے کی صورت میں اسرائیل ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہے گا‘۔

Israel Palästina Gaza Konflikt Waffenruhe
فلسطینیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہےتصویر: Reuters

اسرائیل کی طرف سے نہ صرف غزہ سے ہونے والے حملوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے بلکہ فلسطینی علاقوں کو مزید کنٹرول میں رکھنے کے امکانات پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ جبکہ حماس کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل اور مصر غزہ پٹی کی ناکہ بندی ختم کریں نیز فلسطینیوں کی آزادانہ نقل و حرکت اور اشیائے صرف کی ترسیل کی آزادی دی جائے۔ فائر بندی کے معاہدے پر اتفاق کے بعد فلسطینیوں کی طرف سے فوری رد عمل یہ تھا کہ انہوں نے اپنا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ وہ تنازعات کا طویل مدتی حل چاہتے ہیں۔

غزہ سے تعلق رکھنے والے ایک فلسطینی شہری حسام عابد کے بقول،’ ہم ایک طویل مدتی فائر بندی چاہتے ہیں۔ ہمیں تمام فریقوں سے اس کی یقین دہانی چاہیے۔ وقتی خاموشی اور ایک ماہ کے بعد حالات کا پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو جانا، یہ ہمیں منظور نہیں‘۔

Clinton Mursi Gespräch Diplomatie
کلنٹن اور مرسی فائر بندی معاہدے کے بارے میں مذاکرات کرتے ہوئےتصویر: Reuters

فائر بندی کے اس معاہدے میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے مصری صدر کو ایک فاتح کی حیثیت سے عالمی سطح پر کافی پذیرائی مل رہی ہے۔ تاہم اسرائیل اور فلسطین کے مابین توازن قائم رکھنا اب بھی آسان نہیں ہے۔ نئی مصری حکومت کو عالمی سفارتی منظر نامے پر ایک بڑی کامیابی ضرور ملی ہے تاہم مرسی کے لیے یہ معاملہ کتنا پیچیدہ ہے اس امر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مرسی نے پاکستان میں ہونے والے D8 اجلاس میں شرکت کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اندرون ملک اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال سے لمحہ با لمحہ با خبر رہنا ضروری ہے۔

یاد رہے کہ مرسی اخوان المسلمون سے وابستہ رہ چُکے ہیں اور اس پارٹی کے حماس کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں اور مصری عوام میں فلسطینیوں کے لیے بھائی چارگی کا احساس پایا جاتا ہے۔

km/aa AFP