غزہ کے شہریوں پر ٹوٹتی قیامت
اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف دو ہفتے سے جاری کارروائی میں اب تک بڑی تعداد میں بچوں اور خواتین سمیت سینکڑوں فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
غزہ کے شہریوں کی بے بسی
مسلسل حملوں کے نتیجے میں غزہ کے اندر پورا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ غزہ کا ستر فیصد علاقہ بجلی سے محروم ہے جبکہ صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ بھی سنگین شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ غزہ کے بے بس باسیوں کے پاس سوائے اپنے عزیزوں کی موت پر رونے کے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
اپنے پیاروں کی موت پر نوحہ کناں
غزہ پٹی کے جنوبی علاقے رفاہ میں اسرائیلی شیلنگ میں مارے جانے افراد کے قریبی عزیز اُن کی موت پر آنسو بہا رہے ہیں۔ اسرائیلی ٹینکوں کی گولہ باری کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے بھی حماس کے ٹھکانوں پر بمباری جاری ہے۔
اپنے وطن میں در بدر
اسرائیلی آپریشن کے نتیجے میں غزہ کے شمالی حصے سے ہزارہا فلسطینی شہریوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے۔ بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد نے مختلف اسکولوں اور اقوام متحدہ کی جانب سے فراہم کیے گئے مراکز میں پناہ لے رکھی ہے۔
معصوم آنکھوں میں لرزتا خوف
ایک فلسطینی لڑکا اپنے گھر کا کچھ بچا کھچا سامان لیے ایک ایسے گھر کے پاس سے گزر رہا ہے، جو پولیس کے مطابق اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ایک فضائی حملے میں تباہ ہو گیا تھا۔ عالی سطح پر فائر بندی کی اپیلوں کے باوجود فلسطینی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے اور مرنے والوں کی تعداد پانچ سو سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔
آگ اگلتی اسرائیلی توپیں
غزہ پٹی کے ساتھ ملنے والی اسرائیلی سرحد کے قریب ایک اسرائیلی توپ خانے سے 155 ملی میٹر کے گولے غزہ میں عسکریت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں کی جانب پھینکے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ شہریوں کو پہلے سے مطلع کر دیا گیا تھا کہ وہ غزہ کے شمالی علاقے خالی کر دیں جبکہ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی کا کوئی بھی مقام اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں ہے۔
زیر زمین سرنگوں کے خلاف زمینی آپریشن
اسرائیلی ٹینک غزہ پٹی کے شمالی حصے میں سرگرم عمل نظر آ رہے ہیں۔ غزہ کے خلاف زمینی آپریشن شروع کرنے والے اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ خاص طور پر ایسی زیر زمین سرنگوں کو نشانہ بنا رہا ہے، جو حماس کے جنگجوؤں نے بنا رکھی ہیں اور جن کے راستے یہ جنگجو زمین کے اندر سے سرحد پار کر کے اسرائیلی سرزمین تک بھی جا سکتے ہیں۔
’کس سے منصفی چاہیں‘
ایک فلسطینی خاتون اپنے قریبی عزیزوں کے ایک گھر کے ملبے کے پاس بیٹھی بین کر رہی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خان یونس مہاجر کیمپ کے قریب واقع یہ مکان اسرائیلی گولہ باری کے نتیجے میں تباہ ہو گیا تھا۔
’کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے؟‘
ایک فلسطینی شہری اپنے تباہ شُدہ مکان کے ملبے میں سے ایک میٹریس نکال کر باہر لا رہا ہے۔ یہ مکان غزہ پٹی کے جنوبی حصے کے علاقے خان یونس میں واقع تھا۔ دو ہفتوں سے جاری اسرائیلی حملوں کی شدت میں سرِ دست کسی کمی کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔
پناہ کی تلاش میں
غزہ کے مشرقی علاقے شجائیہ کے باسیوں کے لیے اتوار بیس جولائی کا دن انتہائی خونریز ثابت ہوا۔ اُس روز اسرائیل کی جانب سے اس علاقے پر شدید گولہ باری کے بعد سڑکوں پر لاشیں ہی لاشیں نظر آ رہی تھیں۔ اس کے بعد وہاں کے رہائشی افراتفری میں اپنے بچوں کو لے کر محفوظ مقامات کی طرف دوڑ پڑے۔ شدید گولہ باری کی وجہ سے ایمبولینسیں بھی سرحد کے قریب واقع مقامات پر پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے نہ جا سکیں۔
کھنڈرات کے بیچوں بیچ
دو ہفتوں سے جاری اسرائیلی آپریشن نے غزہ پٹی کے کئی مقامات کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان کا سامنا عام شہریوں کو کرنا پڑا ہے تاہم اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس اور دیگر جہادی گروپ ان فلسطینی شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے رہے اور یہ کہ ان شہریوں کو اسلحے کے زور پر جنگجوؤں کے ٹھکانوں اور عسکری مراکز کے قریب پکڑ کر رکھا گیا۔