غزہ پٹی میں ہلاک شدگان کی تعداد 700 سے تجاوز کرگئی
8 جنوری 2009اس تنازعے میں اگرچہ اب تک محض تین گھنٹے کی فائر بندی دیکھنے میں آئی ہے جو بدھ کی دوپہر سے لے کر سہ پہر تین بجے تک ممکن ہوسکی۔ اس کی وجہ غزہ کے متاثرہ شہریوں کو امدادی سامان کی فراہمی تھی۔ تاہم اس تنازعے میں فریقین کے ایک دوسرے پر حملوں اور مسلسل ہلاکتوں کو روکنے کے لئے بین الاقوامی برادری کی کوششیں بھی ابھی تک جاری ہیں۔
ان کاوشوں کے جمعرات کی صبح تک طویل المدتی بنیادوں پر کوئی بہت حوصلہ افزاء نتائج تو سامنے نہیں آئے پھر بھی ان امیدوں کو کچھ تقویت بہرحال ملی ہےکہ عالمی برادری خطے میں اس نئی جنگ کو شاید جلد ہی رکوا سکے گی۔
مشرق وسطیٰ کا کئی روزہ دورہ کرنے والے یورپی یونین کے فرانس، سویڈن اور چیک جمہوریہ کے وزرائے خارجہ کے جس وفد نے اتوار کے دن سے اپنا کئی ملکی دورے پر مشتمل ثالثی مشن شروع کیا تھا، اس کے بارے میں اس وفد کے ہمراہ جانے والی یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران کمشنر بینیٹا فیریرو والڈنر بدھ کی شام تک بس اتنا ہی کہہ سکیں کہ وہ اور ان کے ساتھی اسرائیلی وزیر اعظم اولمیرٹ کو اس امر پر آمادہ کرنے میں کامیاب رہے کہ یوریی کمشن کا ایک نمائندہ اسرائیلی وزارت دفاع میں اس وزارت کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے غزہ پٹی کے شہریوں کے لئے انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کو مربوط بنانے کا کام کرے گا۔
یورپی یونین کےمشرق وسطیٰ میں ثالثی کی کوششیں کرنے والے اسی وفد میں شامل یونین کے موجودہ صدر ملک چیک جمہوریہ کے وزیر خارجہ کاریل شوارسین بیرگ نے یورپی سفارتی کوششوں کے نتائج کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:
"ہم فوری طور پر جنگ بندی کی منزل حاصل نہیں کرسکتے۔ ہمیں اس کے لئے تیاری کرنا ہوگی اور خطے کے تمام ممالک کے ساتھ مل کر وہ معلومات حاصل کرنا ہوں گی جو اس بارے میں ہماری رہنمائی کرسکیں کہ ہماری اگلی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔"
اسرائیل کو فائر بندی پر راضی کرنے کے لئے مصر اور فرانس نے مل کر اب تک جوعبوری تجاویز پیش کی ہیں ان پر خود اسرائیل نے تو محتاط رد عمل کا اظہار کیا ہے تاہم امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے ان تجاویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نےاسرائیلی اور عرب وزراء سے اب تک اس سلسلے میں جو تبادلہ خیال کیا ہے اس سے بھی یہی بات سامنے آئی ہے کہ اس تنازعے میں اہم ترین بات کسی نہ کسی طرح آگے بڑھنا ہے۔
اسی دوران غزہ پٹی کے علاقے میں اقوام متحدہ کے ایک سکول پر اسرئیلی راکٹ حملوں میں 40 سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت کے بارے میں اقوام متحدہ کے ذرائع کے بقول اسرائیلی حکومت نے اب یہ تسلیم کرلیا ہے کہ جبلیہ کے مہاجر کیمپ میں اس سکول پر حملے سے پہلے اس عمارت سے فلسطینی عسکریت پسندوں نے کوئی راکٹ حملے نہیں کئے تھے۔
اہم بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ اپنے اس اسکول پر حملے کی چھان بین کا مطالبہ کررہا تھا کیونکہ شروع میں اسرائیل نے مسلسل یہ مئوقف اختیار کر رکھا تھا کہ اس اسکول سے عسکریت پسندوں نے راکٹ حملے کئے تھے جن کے جواب میں وہاں توپ خانے سے گولہ باری کی گئی جو بیسیوں سویلین باشندوں کی ہلاکت کا باعث بنی۔
غزہ پٹی کے علاقے میں کسی نہ کسی طرح فائر بندی کو ممکن بنانے کی اقوام متحدہ میں جاری کوششوں کی تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ سلامتی کونسل میں اب سفارتی مذاکرات میں بات واضح اختلاف رائے تک پہنچ گئی ہے۔ مغربی ملکوں کی خواہش ہے کہ اس بارے میں سلامتی کونسل محض ایک بیان جاری کرے جبکہ عرب ممالک یہ چاہتے ہیں کہ اس مسئلے پر سلامتی کونسل کو ایک باقاعدہ قرارداد منظور کرنی چاہیے۔
مشرق وسطیٰ میں خونریزی جمعرات کے روز اپنے 13 ویں دن بھی جاری ہے اور15 رکنی سلامتی کونسل ابھی تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائی کہ اسے اس بارے میں کوئی بیان جاری کرنا چاہیے یا کوئی قرارداد منظور کرنی چاہیے۔