عرب لیگ کا اجلاس عدم اتفاق کا شکار
30 مارچ 2012عرب لیگ کے رہنما جمعرات 29 مارچ کو عراقی دارالحکومت بغداد میں اکھٹے ہوئے۔ اس اجلاس کا مقصد عرب ممالک میں پائے جانے والے اختلافات کو دور کرنے کی کوششیں کرنا اور شام کی صورتحال پر بات چیت کرنا تھا۔ جمعرات ہی کو اس اجلاس کا اختتام ہوا۔
گزشتہ 20 برسوں سے زائد عرصے کے بعد عرب لیگ کا اجلاس عراق میں منعقد ہوا۔ دہشت گردانہ حملوں کے خوف اور وحشت زدہ ماحول میں اس اجلاس کا انعقاد عراقی دارالحکومت کے گرین زون کے اندر ہوا۔ اس موقعے پر سکیورٹی انتظامات بہت زیادہ سخت تھے۔ اس کے باوجود اجلاس کی کارروائی جاری ہی تھی کہ اس دوران دو دھماکے سنائی دیے۔ یہ گرینیڈ حملے کنونشن سینٹر کے سامنے ہوئے۔ ان دھماکوں سے اُن تمام سربراہان مملکت کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کی وجہ سمجھ میں آ گئی جنہوں نے بغداد آنے سے گریز کیا۔ 22 رکنی عرب لیگ کے محض 10 رہنماؤں نے کل کے اجلاس میں شرکت کی۔ باقیوں نے اپنے وزرا یا سفیر ترجمان کے طور پر بھیج دیے تھے۔ اجلاس سے خطاب کرنے والے تمام شرکاء نے اپنی تقاریر میں صومالیہ اور یمن کی صورتحال، تیونس، مصر، لیبیا، اسرائیل فلسطینی تنازعہ اور شام کے مسئلے پر بات کی۔
اجلاس کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نبیل العربی نے شامی صدر بشار الاسد سے پُر زور مطالبہ کیا کہ وہ فی الفور کوفی عنان کے امن منصوبے پر عمل در آمد کریں۔ اُدھر عراقی صدر جلال طالبانی نے شام سے متعلق ایک بیان دیتے ہوئے کہا،’’شام کی اس اجلاس میں عدم موجودگی کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اپنے برادر ملک کے بارے میں کوئی فکر نہیں۔ ہم شام میں ہونے والی ہلاکتوں اور خونریزی کی سخت مذمت کرتے ہیں، ہم اپنا یہ مطالبہ دہراتے ہیں کہ تنازعے کا پُر امن حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ یہی مؤقف عرب لیگ کی قرارداد میں بھی شامل ہے۔ ہم شامی باشندوں کی جمہوری خواہشات کا احترام کرتے ہیں۔ انہیں جمہوری طریقے سے اپنے نظام میں تبدیلی لانے کے مواقعے فراہم ہوں مگر کسی غیر ملکی مداخلت کے بغیر۔ شامی باشندوں کو اقوام متحدہ اور عرب لیگ کی طرف سے مقرر کردہ خصوصی ایلچی کوفی عنان کے پلان سے استفادہ کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔‘‘
عرب لیگ کے اجلاس میں شام کی صورتحال پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کویت کے امیر شیخ صباح الاحمد الصباح نے شامی حکومت سے عوام کے خلاف تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ ان کے بقول’’گزشتہ مہینوں کے دوران شام کے بحران کے خاتمے کے لیے عرب رہنماؤں نے ممکنہ کوششیں کیں اور ایک امن پلان تیار کیا گیا۔ عرب لیگ نے قرارداد کا مسؤدہ تیار کیا اور اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا۔ ہمارا خیال ہے کہ اس پر عمل درآمد ہی شام کے بحران کے خاتمے کا سبب بنے گا۔ اس طرح وہاں ہمارے بھائی خانہ جنگی کی سی صورتحال سے نکل سکیں گے۔‘‘
شام کے بحران کا پُر امن حل عالمی مفاد میں ہے۔ تاہم عرب لیگ کے اجلاس میں اس سے متعلق کسی ٹھوس لائحہ عمل پر اتفاق نہ ہو سکا۔
رپورٹ: بیون بلاشکے/ کشور مصطفیٰ
ادارت: افسر اعوان