1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب لیگ کا اجلاس عدم اتفاق کا شکار

Kishwar Mustafa30 مارچ 2012

22 رکنی عرب لیگ کے محض 10 رہنماؤں نے کل کے اجلاس میں شرکت کی۔ باقیوں نے اپنے وزرا یا سفیر ترجمان کے طور پر بھیج دیے تھے۔

https://p.dw.com/p/14VAz
تصویر: picture-alliance/dpa

عرب لیگ کے رہنما جمعرات 29 مارچ کو عراقی دارالحکومت بغداد میں اکھٹے ہوئے۔ اس اجلاس کا مقصد عرب ممالک میں پائے جانے والے اختلافات کو دور کرنے کی کوششیں کرنا اور شام کی صورتحال پر بات چیت کرنا تھا۔ جمعرات ہی کو اس اجلاس کا اختتام ہوا۔

گزشتہ 20 برسوں سے زائد عرصے کے بعد عرب لیگ کا اجلاس عراق میں منعقد ہوا۔ دہشت گردانہ حملوں کے خوف اور وحشت زدہ ماحول میں اس اجلاس کا انعقاد عراقی دارالحکومت کے گرین زون کے اندر ہوا۔ اس موقعے پر سکیورٹی انتظامات بہت زیادہ سخت تھے۔ اس کے باوجود اجلاس کی کارروائی جاری ہی تھی کہ اس دوران دو دھماکے سنائی دیے۔ یہ گرینیڈ حملے کنونشن سینٹر کے سامنے ہوئے۔ ان دھماکوں سے اُن تمام سربراہان مملکت کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کی وجہ سمجھ میں آ گئی جنہوں نے بغداد آنے سے گریز کیا۔ 22 رکنی عرب لیگ کے محض 10 رہنماؤں نے کل کے اجلاس میں شرکت کی۔ باقیوں نے اپنے وزرا یا سفیر ترجمان کے طور پر بھیج دیے تھے۔ اجلاس سے خطاب کرنے والے تمام شرکاء نے اپنی تقاریر میں صومالیہ اور یمن کی صورتحال، تیونس، مصر، لیبیا، اسرائیل فلسطینی تنازعہ اور شام کے مسئلے پر بات کی۔

Irak Gipfel Arabische Liga in Bagdad Emir von Kuwait
کویت کے امیر شیخ صباح الاحمد نے شام کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیاتصویر: dapd

اجلاس کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نبیل العربی نے شامی صدر بشار الاسد سے پُر زور مطالبہ کیا کہ وہ فی الفور کوفی عنان کے امن منصوبے پر عمل در آمد کریں۔ اُدھر عراقی صدر جلال طالبانی نے شام سے متعلق ایک بیان دیتے ہوئے کہا،’’شام کی اس اجلاس میں عدم موجودگی کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اپنے برادر ملک کے بارے میں کوئی فکر نہیں۔ ہم شام میں ہونے والی ہلاکتوں اور خونریزی کی سخت مذمت کرتے ہیں، ہم اپنا یہ مطالبہ دہراتے ہیں کہ تنازعے کا پُر امن حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ یہی مؤقف عرب لیگ کی قرارداد میں بھی شامل ہے۔ ہم شامی باشندوں کی جمہوری خواہشات کا احترام کرتے ہیں۔ انہیں جمہوری طریقے سے اپنے نظام میں تبدیلی لانے کے مواقعے فراہم ہوں مگر کسی غیر ملکی مداخلت کے بغیر۔ شامی باشندوں کو اقوام متحدہ اور عرب لیگ کی طرف سے مقرر کردہ خصوصی ایلچی کوفی عنان کے پلان سے استفادہ کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔‘‘

Treffen der Arabischen Außenminister in Bagdad
عرب لیگ کا اجلاس بغداد میں خوف و حراس کے ماحول میں ہواتصویر: Reuters

عرب لیگ کے اجلاس میں شام کی صورتحال پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کویت کے امیر شیخ صباح الاحمد الصباح نے شامی حکومت سے عوام کے خلاف تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ ان کے بقول’’گزشتہ مہینوں کے دوران شام کے بحران کے خاتمے کے لیے عرب رہنماؤں نے ممکنہ کوششیں کیں اور ایک امن پلان تیار کیا گیا۔ عرب لیگ نے قرارداد کا مسؤدہ تیار کیا اور اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا۔ ہمارا خیال ہے کہ اس پر عمل درآمد ہی شام کے بحران کے خاتمے کا سبب بنے گا۔ اس طرح وہاں ہمارے بھائی خانہ جنگی کی سی صورتحال سے نکل سکیں گے۔‘‘

شام کے بحران کا پُر امن حل عالمی مفاد میں ہے۔ تاہم عرب لیگ کے اجلاس میں اس سے متعلق کسی ٹھوس لائحہ عمل پر اتفاق نہ ہو سکا۔

رپورٹ: بیون بلاشکے/ کشور مصطفیٰ

ادارت: افسر اعوان