عراقی کرد پارلیمنٹ فورسز کوبانی بھیجنے پر تیار
23 اکتوبر 2014یہ منظوری ایک ایسے وقت دی گئی ہے جب ترکی نے کوبانی پر کردوں کے لیے فضا سے ہتھیار پھینکے جانے پر امریکا پر تنقید کی ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ بعض ہتھیار جہادیوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔
ابھی رواں ہفتے ہی ترکی نے اعلان کیا تھا کہ عراقی کرد فائٹرز کو کوبانی میں داخلے کا راستہ دیا جائے گا تاکہ وہ شام کے سرحدی علاقے میں جہادیوں کے خلاف لڑ سکیں۔ تاہم انقرہ حکام نے آئی ایس کے خلاف فضائی حملے کرنے والے عالمی اتحاد میں شرکت کی بات نہیں کی ہے۔ اب عراق میں خود مختار علاقے کردستان کی پارلیمنٹ نے بھی اپنے فائٹرز کوبانی بیجنے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔
اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں نے ایک ماہ سے زائد عرصے سے کوبانی پر چڑھائی کر رکھی ہے تاہم کرد ملیشیا نے ان کے راستے میں زبردست مزاحمتی دیوار کھڑی کر رکھی ہے۔ کرد محافظوں کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے فضائی حملوں کی معاونت حاصل ہے جن کے ذریعے جہادی اہداف کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترکی کی سرحد پر واقعہ یہ شامی کرد اکثریتی علاقہ آئی ایس کے خلاف ایک اہم میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔
کردستان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر یوسف محمد صادق نے کہا ہے: ’’کردستان کی پارلیمنٹ نے اپنی فورسز کوبانی بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہاں فائٹرز کی مدد کی جا سکے اور کوبانی کا دفاع کیا جا سکے۔‘‘
انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی فورسز شام کب پہنچیں گی تاہم انہوں نے کہا کہ ان کی فورسز جب تک ضرورت ہو گی کوبانی میں رہیں گی۔
دوسری جانب کوبانی میں کرد محافظ مسلسل جہادیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس علاقے میں بدھ کو اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسندوں کے خلاف امریکی قیادت میں اتحادی فورسز کے چھ فضائی حملوں کی بھی اطلاع ہے۔
اے ایف پی نے علاقے میں موجود اپنے ایک نمائندے کے حوالے سے بتایا ہے کہ بدھ کی شام کوبانی کے مختلف علاقوں میں شدید لڑائی چھڑی جس سے آئی ایس کی جانب سے تازہ حملے کی نشاندہی ہوتی ہے۔
اُدھر شام کی حکومت نے کہا ہے کہ جہادیوں کے زیر قبضہ تین جیٹ طیاروں میں سے دو تباہ کر دیے گئے ہیں۔ شدت پسندوں نے حلب اور رقہ پر قبضے کے بعد وہاں فوجی اڈوں پر موجود ان طیاروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔