عراقی فورسز رمادی شہر میں داخل
22 دسمبر 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عراقی فوجی حکام کے حوالے سے بدھ بائیس دسمبر کو بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز صوبہ انبار کے دارالحکومت رمادی کے مرکزی علاقوں تک پہنچ چکی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے متعدد محازوں سے پیش قدمی شروع کی اور اب ان کی کوشش ہے کہ وہ شہر کے رہائشی علاقوں تک بھی پہنچ جائیں۔
عراق کے انسداد دہشت گردی کی فورس نے توقع ظاہر کی ہے کہ بہتر گھنٹوں میں اس شہر کو جہادیوں سے مکمل طور پر ’صاف‘ کر دیا جائے گا۔ اس ادارے کے ترجمان نعمان نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہمیں جنگ جوؤں کی طرف سے کوئی خاص مزاحمت نہیں ملی۔ ماہر نشانہ بازوں اور خود کش حملوں کا سامنا تھا لیکن ہمیں معلوم تھا کہ یہ تو ہونا ہی ہے، اس لیے ہم نے ایسے حملوں سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔‘‘
عراقی فورسز نے منگل کی رات رمادی میں جہادیوں کو پسپا کرنے کے لیے ایک بڑا آپریشن شروع کیا تھا، جس کا مقصد اس شہر کو مکمل طور پر بازیاب کرانا تھا۔ عراقی سرکاری ٹیلی وژن پر جاری کردہ فوٹیج کے مطابق عراقی فورسز تباہ حال شہر رمادی کی خالی سٹرکوں پر گشت کرتی اور گھروں کی تلاشی لیتی دیکھی جا سکتی ہیں۔
رمادی کی بازیابی کے اس آپریشن کی سربراہی انسداد دہشت گردی کا ایلیٹ ادارہ کر رہا ہے، جس میں اسے امریکی اتحادی فوج کی فضائی کارروائی کا تعاون بھی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ فوج اور پولیس کے اہل کاروں کے علاوہ داعش مخالف سنی ملیشیا گروہ بھی مدد فراہم کر رہے ہیں۔
عراقی فورسز کی کارروائی کی نتیجے میں حال ہی میں داعش کے جہادی متعدد مقامات پر پسپا پو چکے ہیں۔ عراقی شیعہ ملیشیاؤں نے بالخصوص تکریت اور بیجی میں ان شدت پسندوں کو شکست دینے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ تاہم یہ شیعہ فائٹرز رمادی کے آپریشن میں شامل نہیں ہیں کیوں کہ اس سے رمادی کی سنی اکثریتی آبادی میں فرقہ واریت کا خیال ابھر سکتا ہے۔
انتہا پسند تنظیم داعش کے جہادیوں نے سترہ مئی کو رمادی کا مکمل کنٹرول سنبھالا لیا تھا۔ یوں گزشتہ تقریبا آٹھ ماہ تک انہیں سرنگیں بنانے کا وقت بھی مل گیا، جس سے زیادہ تر جہادی دیگر علاقوں میں فرار ہو چکے ہیں۔
عراقی فوجی حکام نے گزشتہ ہفتے ہی بتایا تھا کہ اب اس شہر میں کوئی تین سو جہادی ہی بچے ہیں۔ عراقی فورسز نے نومبر میں اس شہر کا محاصرہ کیا تھا، جس کے بعد جہادیوں نے وہاں سے فرار کی منصوبہ بندی کر لی تھی۔