عراقی صدر نے نائب اسپیکر العبادی کو حکومت سازی کی دعوت دے دی
11 اگست 2014معصوم فواد نے اپنے ٹی وی خطاب میں انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ العبادی عراقی عوام کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔ اس سے قبل نوری المالکی نے اپنے خطاب میں اس بات پر سخت ناراضی کا اظہار کیا تھا کہ پارلیمان میں ان کے اتحاد کی برتری کے باوجود ملکی صدر نے انہیں حکومت سازی کی دعوت نہ دے کر دستور کی خلاف ورزی کی۔
شیعہ جماعتوں کی جانب سے حیدرالعبادی کی نامزدگی
اس سے قبل پیر ہی کے روز عراق میں اہم شیعہ جماعتوں نے حیدر العبادی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کر دیا تھا۔ سابقہ وزیر ٹیلی مواصلات العبادی رخصت ہونے والے وزیراعظم نوری المالکی ہی کی جماعت اسٹیٹ آف لاء کے اہم رہنما ہیں۔
پیر کے روز عراقی میڈیا پر سامنے آنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ شیعہ جماعتوں کے اس بلاک سے تعلق رکھنے والے 173 قانون سازوں میں سے 127 نے العبادی کے حق میں رائے کا اظہار کیا، حالاں کہ وزیراعظم نوری المالکی کا اصرار تھا کہ انہیں ہی دوبارہ وزارت عظمیٰ کا قلمدان سونپا جانا چاہیے۔
شیعہ جماعتوں کی جانب سے العبادی کی نامزدگی اور صدر فواد معصوم کی طرف سے انہیں حکومت سازی کی دعوت جیسی پیش رفت ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے، جب وزیراعظم نوری المالکی نے گزشتہ شب اپنی تقریر میں وزارت عظمیٰ چھوڑنے کے لیے تمام تر دباؤ مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا تھا کہ انہیں دوبارہ منتخب کیا جانا چاہیے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق عالمی برادری کی جانب سے المالکی سے متعدد مرتبہ کہا جا چکا ہے کہ وہ ملک کے استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے اور ملک کے شمال اور مغربی حصوں میں سنی شدت پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ کی پیش قدمی روکنے کے لیے ایک وسیع تر قومی حکومت کا قیام عمل میں لائیں، جن میں تمام فرقوں اور اقلیتوں کو نمائندگی دی جائے، تاہم نوری المالکی یہ مطالبات مسترد کر چکے ہیں۔
کردوں کو ہتھیاروں کی فراہمی
ادھر ملک کے شمال میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف برسر پیکار کُرد فورسز کی جانب سے عسکری مدد کے مطالبے پر امریکی حکومت نے انہیں اسلحہ اور گولا بارود مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے مطابق، ’ہم عراقی حکومت کے ساتھ ملک کر کام کر رہے ہیں، تاکہ کردوں کی ہتھیاروں کی فوری ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔‘
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان میری ہاف نے نشریاتی ادارے سی این این سے بات چیت میں کہا، ’اس عسکری مدد میں عراقی حکومت کے پاس موجود اسلحے کے ذخیرے سے کردوں کی مدد کے علاوہ ہماری جانب سے بھی ان کے لیے اسلحے کی فراہمی شامل ہو گی۔‘
تاہم میری ہارف نے یہ نہیں بتایا کہ کردوں کو کس طرح کا اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے اور اس کی تعداد یا مقدار کتنی ہے۔
امریکا کی جانب سے کردوں کے لیے ہتھیاروں کو فراہمی کی اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب امریکی صدر باراک اوباما نے چند روز قبل شدت پسند سنی گروہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی فضائی کارروائیوں کی اجازت دی ہے۔ ان کارروائیوں کا مقصد اسلامک اسٹیٹ کے ہاتھوں نسل کشی سے بچنے کے لیے ایزدی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی اربیل کے قریبی پہاڑوں میں پناہ لیے ہوئے افراد کی مدد اور اربیل شہر کو اسلامک اسٹیٹ پر قبضہ حاصل کرنے سے روکنا ہے۔ اربیل شہر میں امریکی سفارتی عملہ بھی موجود ہے۔
اسلامک اسٹیٹ کے خلاف اقدامات پر یورپی یونین کا غور
دوسری جانب معاملے کی حساسیت کے پیش نظر منگل کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ ملاقات کر رہے ہیں۔ اس سے قبل فرانسیسی وزیرخارجہ لاراں فابیوس نے یورپی یونین کی سربراہ برائے امور خارجہ کیتھرین ایشٹن کے نام اپنے ایک مراسلے میں درخواست کی تھی کہ عراق کے حوالے سے یورپی مدد کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ امریکا کے جانب سے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فضائی کارروائیوں کے اعلان کے بعد فرانس نے بھی ایزدی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی مدد کے لیے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فضائی کارروائیاں کرنے کا اعلان کیا تھا، جب کہ برطانیہ بھی ایزدیوں کے لیے امدادی سرگرمیوں کا آغاز کر چکا ہے۔ اسی تناظر میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھی اپنی جماعت کی جانب سے شدید دباؤ کا شکار ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ برطانوی امدادی جہازوں کے عملے نے ایزدی افراد کی مدد کے لیے اس علاقے پر پروازیں کیں، انہیں امداد کے منتظر افراد کو دکھائی دیے لیکن اس پہاڑی علاقے میں وہ جگہ نہ مل پائی، جہاں یہ امداد اتار جا سکتی تھی۔ برطانیہ کی قدامت پسند ٹوری جماعت وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ان افراد کی مدد کے لیے زیادہ اقدامات کریں، جب کہ کچھ قانون سازوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ برطانیہ کو اسلامی شدت پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فضائی حملوں کا آغاز کر دینا چاہیے۔