عراقی شہر کِرکُوک پر کُرد قابض
12 جون 2014کِرکُوک کے گورنر نجم الدین کریم نے اس کی تصدیق کی ہے کہ عراق کے خود مختار کرد علاقے کردستان کی پیش مرگہ فورسز نے کِرکُوک شہر اور صوبے کے اُن تمام مقامات پر پہنچنا شروع کر دیا ہے، جہاں سے عراقی فوج انخلاء کر چکی ہے۔ نجم الدین کریم کا مزید کہنا تھا کہ عراقی شہر مُوصل اور صوبے صلاح الدین میں عراقی فوج اب کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ صوبے صلاح الدین کے صدر مقام تِکرِت پر عسکریت پسند پہلے ہی قابض ہو چکے ہیں۔ عراقی کردوں کے مطابق کِرکُوک کے تحفظ اور انتہا پسندوں سے اِسے محفوظ رکھنے کے لیے اس پر قبضہ کیا گیا ہے۔ کِرکُوک پر مکمل قبضے کی تصدیق پیش مرگہ فورسز کے ترجمان نے بھی کر دی ہے۔
کرد سکیورٹی فورسز پیش مرگہ کے بریگیڈيئر جنرل شِرکو رؤف کا کہنا ہے کہ کِرکُوک شہر کے تمام اہم مقامات پر اُن کی فوج متعین کر دی گئی ہے۔ کرد فوجی جنرل کے مطابق وہ اعلیٰ حکام کے اگلے حکم کے منتظر ہیں اور اُس کے بعد ہی کِرکُوک کے قُرب و جوار میں شدت پسند تنظيم اسلامی ریاست برائے عراق و شام کے جنگجوؤں کے خلاف کوئی کارروائی شروع کی جائے گی۔ ایسی رپورٹس بھی ہیں کہ کِرکُوک کے قریبی بعض علاقوں پر انتہا پسند جنگجوؤں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
دوسری جانب بغداد میں عراقی پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس کورم نہ پورا ہونے کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نوری المالکی نے پارلیمنٹ سے ہنگامی حالت نافذ کرنے کی درخواست کی تھی اور اِس اجلاس میں اس کے نفاذ کا فیصلہ کیا جانا تھا۔ مالکی حکومت کے ایک اہلکار کے مطابق پارلیمنٹ کے 325 اراکین میں سے صرف 128 رکن ایوان میں موجود تھے۔ پارلیمنٹ کے ایمرجنسی سیشن کو دو روز قبل طلب کیا گیا تھا۔ اس سیشن کے لیے وزیر اعظم اور صدر کے دفتر کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کی درخواست کی گئی تھی۔ مبصرین نے پارلیمنٹ کے کورم کا پورا نہ ہونے کو پارلیمانی اراکین کی بےحسی سے تعبیر کیا ہے۔
تازہ ترین رپورٹس کے مطابق القاعدہ سے نسبت رکھنی والی انتہا پسند تنظیم ’اسلامی ریاست برائے عراق و شام‘ مُوصل اور تِکرِت پر قابض ہونے کے بعد دارالحکومت بغداد کے شمال میں واقع اہم قصبے العَظیم کے نواحی علاقوں پر بھی قابض ہو چکی ہے۔ عراق فوجی العَظیم سے پیچھے ہٹتے ہوئے خالِص نامی قصبے میں اپنی پوزیشن مضبوط کر رہی ہے۔ العظیم کے ايک پولیس افسر کے مطابق وہ بغداد سے حکم کے منتظر ہیں۔ تِکرِت کے شمال میں واقع قصبے عَلَم پر بھی انتہا پسندوں کے قبضے کا بتایا گیا ہے۔ اسی طرح سنی جنگجوؤں نے ضُولیہ اور معتصم کے قصبوں کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’اسلامی ریاست برائے عراق و شام‘ نے ایک سابق عراقی فوجی جرنیل کی قیادت میں چڑھائی کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ اب ان عسکریت پسندوں کو مالکی مخالف سنی قبائلی لشکریوں کی حمایت بھی حاصل ہوتی جا رہی ہے۔ کئی قصبوں میں عسکریت پسندوں نے قبضے کے بعد گرفتار ہونے والے فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو گولیاں مار کر ہلاک بھی کیا۔
اُدھر ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ اُن کا ملک عراق میں دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہے اور عراق ميں مزيد بد امنی کو روکنے کی کوشش کرے گا۔ ایرانی صدر نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ سنی عسکریت پسندوں کو روکنے کے لیے کون سی حکمت عملی اپنانا چاہتے ہیں۔ حسن روحانی نے ٹیلی وژن پر اپنے خطاب میں کہا کہ انتہا پسند جس ظلم و جبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ ایران کو قطعاً قبول نہیں ہے۔ ایرانی صدر نے کہا کہ اُن کی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خطے میں تشدد، دہشت گردی اور انتہا پسندی کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ ایران اِس وقت عراقی وزیراعظم نوری المالکی کا کھلا حلیف ہے۔